آصف سعود/ حسام فاروقی:
اندرون سندھ میں ڈاکوئوں کے خلاف کارروائی سے قبل بڑے پیمانے پر آپریشن کرنے کے اعلانات کرنے پر کچے کے بڑے ڈاکو بلوچستان فرار ہوتے رہے ہیں۔ شکار پور میں حالیہ کارروائی میں فورسز کے بڑے نقصان کے بعد بھی سندھ میں کچے کے علاقے میں بڑے آپریشن کا اعلان کر دیا گیا۔ جس کے بعد ایسی انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ کچے کے بدنام ڈاکو سندھ سے فرار ہوکر بلوچستان چلے گئے ہیں۔ سندھ حکومت ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن چاہتی ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اندرون سندھ اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں کی وارداتوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جب سندھ کے ڈاکوئوں نے شہر کراچی کا رخ کیا اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں شروع کیں تو شور اٹھنا شروع ہوا۔ جس پر سندھ کے ڈاکوئوں کے سرپرست بعض اہم شخصیات نے ڈاکوئوں کو کراچی میں کارروائیاں کرنے سے منع کردیا۔ کراچی میں بھی سندھ کے جن ڈاکوئوں نے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کیں۔ وہ صرف اغوا کر کے مغویوں کو کچے کے علاقے میں ڈمپ کرتے تھے اور پھر انہیں وہاں سے بلوچستان منتقل کر دیا جاتا تھا۔ کراچی میں بعض اہم شخصیات کی مداخلت پر اغوا برائے تاوان کی وارداتیں تو تھمیں۔ لیکن سندھ میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں تیزی جاری رہی۔ جبکہ کسی بھی پولیس افسر نے اندرون سندھ ڈاکوئوں کے خلاف کسی بڑے آپریشن کی جسارت نہیں کی۔
شکار پور میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بھی اپنے اعلیٰ افسران سے اجازت لئے بغیر ہی ڈاکوئوں کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ایس ایس پی شکارپور امیر سعود مگسی اپنے ماتحت افسران کے ہاتھوں ٹریپ ہو گئے۔ کیونکہ انہیں ماتحت افسران نے ہی رپورٹ دی تھی کہ ضلع میں کرائم کے گراف کو کم کرنے کیلئے ڈاکوئوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا پڑے گی۔ تاہم امیر سعود مگسی کو یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کارروائی کے نتیجے میں کیا سیاسی بھونچال آئے گا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اگر امیر سعود مگسی اپنے اعلیٰ افسران کو آپریشن کے حوالے سے اعتماد میں لیتے تو شاید انہیں روک دیا جاتا۔ ایس ایس پی کی عجلت میں شکارپور کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن نے سندھ حکومت اور بعض اہم شخصیات کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ شکار پور واقعہ کے بعد وفاقی حکومت بھی حرکت میں آ گئی ہے اور سندھ کے ڈاکوئوں کے خلاف فوجی آپریشن کی تجویز دی جا رہی ہے ۔ اگر ایسی صورتحال میں فوجی آپریشن کیا گیا تو سندھ کی سیاسی جماعتوں کو آنے والے وقتوں میں سخت سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شکار پور واقعہ میں وفاق کی جانب سے نوٹس لینے اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کو کراچی بھیجنے پر سندھ حکومت حرکت میں آئی ہے۔سندھ حکومت کی جانب سے اچانک شکارپور ضلع میں آپریشن میں مصروف اہم پولیس افسران کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ کو لاڑکانہ رینج اور ایس ایس پی تنویر تنیو کو شکار پور تعینات کیا گیا ہے۔ جبکہ ڈی آئی جی ناصر آفتاب اور ایس ایس پی امیر سعود مگسی کو ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض سیاسی شخصیات کی جانب سے کچے کے علاقے میں برسوں سے جرائم کی وارداتیں کرنے والے ڈاکوئوں کے بڑے کارندوں اور سرغنہ کو بچانے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے شکارپور میں کئے جانے والے دورے کے دوران ایس ایس پی شکار پور کو بھی بغیر اجازت کچے میں کارروائی کرنے پر جھاڑ پلائی ہے۔
دوسری جانب شکارپور واقعے کے بعد پولیس کے ہاتھوں کراچی سے گرفتار تیغو خان تیغانی نے حساس اداروں کے سامنے سنسی خیز انکشافات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ جسے اس وقت نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔ گرفتار ملزم تیغانی قبیلے کا سردار اور گڑھی تیغو میں موجود ڈاکوئوں اور مغویوں کے اہلخانہ کے بیچ پل کا کام سر انجام دیتا رہا ہے۔ ملزم تیغو خان کے کئی سیاسی شخصیات سے بھی رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جس میں پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی امتیاز شیخ کا نام بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کے کئی اعلی افسران بھی ملزم کے خاص دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جنہوں نے ماضی میں ملزم کو کئی کیسوں سے نکلنے اور سائلین کو خاموش کرانے کے فرائض سر انجام دیئے۔ گرفتار ملزم کو سابقہ ایس ایس پی شکار پور اسد رضا کی جانب سے نامعلوم مفاد کے باعث امن کے ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ جو اس وقت اے ڈی آئی جی ٹی اینڈ ٹی تعینات ہیں۔ پولیس کے سی ٹی ڈی زرائع کے مطابق شکار پور میں کچھ روز قبل پولیس اہلکاروں کی شہادت سے شروع ہونے والے ’’کھیل‘‘ کو منتقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ جس میں ڈاکوئوں کے سرغنہ کو مفرور ظاہر کرکے کچھ ڈاکوئوں کا صفایا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور کچے کو کچھ عرصے کیلئے پر امن بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے شکار پور آپریشن کی کمان کرنے والے دو افسران جن میں ڈی آئی جی لاڑکانہ رینج ناصر آفتاب اور ایس ایس پی شکار پور امیر سعود مگسی شامل ہیں، کو ہٹایا گیا ہے۔ اور سابقہ ڈی آئی جی شہید بے نظیرآباد مظہر نواز شیخ کو لاڑکانہ رینج اور ایس ایس پی تنویر تنیو کو شکار پور تعینات کیا گیا ہے۔ انہیں آپریشن کے طریقہ کار کی مکمل ہدایت جاری کی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کراچی سے پولیس اہلکار اور شہید بے نظیر آباد سے پولیس اہلکار شکار پور روانہ کئے گئے ہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب کچے کے علاقے میں عرصہ دراز سے خوف کی علامت بننے والے ڈاکوئوں کے سرغنہ کو بچانے کے لئے کیا گیا ہے۔ تاکہ ان سے بعد میں بھی کام لیا جا سکے۔ جبکہ آپریشن میں کچھ ڈاکوئوں کو بھی صاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاکہ اپنی کارکردگی بھی سامنے لائی جا سکے۔ سی ٹی ڈی ذرائع کا کہنا ہے کہ شکار پور کے بدنام ترین علاقے گڑھی تیغو میں ڈاکوئوں کے ہاتھوں شہید دو پولیس اہلکاروں اور ایک پولیس فوٹو گرافر کے واقعے کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا۔ مگر ڈاکوئوں کے سرغنہ جھینگل تیغانی کو گرفتار نہ کر سکی۔ دوسری جانب پولیس نے کچھ ڈاکوئوں کے ہلاک ہونے اور ڈاکوئوں کے پاس موجود 6 مغوی بازیاب کرانے کا دعویٰ ضرور کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے کے شروع ہوتے ہی پولیس اور حساس اداروں نے گلستان جوہر کے علاقے سے تیغانی قبیلے کے سردار تیغو خان تیغانی کو اس کے دو بیٹوں، بھتیجے، دوست اور ایک ملازم کے ساتھ حراست میں لیا تھا۔ جنہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ گرفتار ملزم کے موبائل فون سے پولیس کو کئی اہم شواہد ہاتھ لگے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن ڈاکوئوں کے خلاف پولیس شکار پور میں آپریشن کر رہی ہے۔ وہ تیغو خان تیغانی سے مسلسل رابطے میں رہے ہیں۔ تیغ محمد تیغانی نے حساس اداروں کے سامنے انکشاف کیا کہ اسے سندھ حکومت کی کئی اہم سیاسی شخصیات کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی اعلی عہدوں پر براجمان پولیس افسران بھی اس کے رابطے میں ہیں۔ جنہیں وہ مختلف نوعیت کی سہولیات فراہم کرتا آیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تیغو خان ہی کراچی سمیت سندھ بھر سے اغوا ہونے والے افراد کے اہلخانہ اور ڈاکوئوں کے مابین ڈیل کراتا تھا۔ جب مغوی کے اہلخانہ تاوان کی رقم تیغو خان کی متعین کردہ جگہ پر پہنچا دیتے تھے تو تیغو خان مغوی کو ڈاکوئوں سے چھڑوا لیا کرتا تھا۔ ذرائع کے مطابق تیغو خان تیغانی کا نام اس وقت سامنے آیا تھا جب شکار پور کے علاقے میں ایک مشہور سندھی گلوکار جگر لال کو گڑھی تیغو میں جھنگل تیغانی کی جانب سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس اغوا کی ہدایت تیغو خان تیغانی کی جانب سے آئی تھی۔ بعدازاں جب پولیس گلوکار کو چھڑوانے کیلیے کچے میں گئی تو ڈاکوئوں کی جانب سے پولیس پر فائرنگ کی گئی۔ جس میں ایک اہلکار رائو شفیع اللہ شہید ہو گیا تھا۔ جس کے بعد شہید اہلکار رائو شفیع اللہ کے بیٹے رائو احمد شفیع نے معزز عدالت کو ایک خط لکھا تھا۔ جس میں معزز عدالت سے از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔ شہید اہلکار شفیع اللہ کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ان کے والد کی شہادت کا مقدمہ درج ضرور ہوا ہے اور اس میں ان کی جانب سے ملزمان بھی نامزد کئے گئے ہیں۔ مگر نامزد تمام ملزمان کو تیغانی قبیلے کے سردار تیغو خان تیغانی نے پناہ دے رکھی ہے۔
تیغو خان تیغانی کو پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی امتیاز شیخ کی مکمل سر پرستی حا صل ہے۔ اس خط میں یہ بھی کہا گیا کہ چوبیس اگست 2019ء کو ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا، جس کے بعد ڈاکٹر رضوان نے میرے والد اور دیگر پولیس اہلکاروں کے قتل سے متعلق اہم شواہد حاصل کیے۔ تحقیقات میں تیغو خان تیغانی کے خلاف بھی اہم شواہد پولیس کے ہاتھ لگے تھے۔ اسی دوران امتیاز شیخ نے جرائم پیشہ شخص تیغو خان تیغانی کو بچانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام میں مداخلت شروع کردی۔ امتیاز شیخ نے کچے میں آپریشن سے متعلق معلومات کو لیک کیا۔
ڈاکٹر رضوان کی خفیہ رپورٹ میں امتیاز شیخ کے خلاف شواہد موجود ہیں۔ پولیس نے جب ایک مفرور ملزم جس کا تعلق تیغو خان تیغانی سے تھا، کو گرفتار کیا تو امتیاز شیخ نے پولیس کو براہ راست دھمکیاں دینی شروع کردیں۔ 6 مارچ کو ایس ایس پی شکارپور اسد رضا اور ایس ایس پی کندہ کوٹ نے تیغو خان تیغانی کو امن ایوارڈ سے نوازا۔ لہذا میری استدعا ہے کہ اس کیس میں از خود نوٹس لیا جائے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق ایس ایس پی شکار پور اسد رضا اور تیغو خان کے درمیان برسوں پرانی دوستی ہے۔ جس کی وجہ سے اسد رضا اپنے دور تعیناتی میں تیغو خان اور اس کے قبیلے کے ڈاکوئوںکو ہر طرح سے پولیس کے شکنجے سے بچاتے آئے ہیں۔ اگر کوئی سائل تیغو خان کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لئے پولیس کے پاس گیا تو اسے بھی خاموش کرانے کی زمہ داری اسد رضا کے پاس ہی تھی۔ اس کے بدلے تیغو خان کی جانب سے موصوف کو مختلف نوعیت کی سہولیات بھی فراہم کی جاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق ایس ایس پی شکار پور اسد رضا اس وقت اے ڈی آئی جی ٹی اینڈ ٹی تعینات ہیں اور ایک وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے ان کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں جب تک مسلح افواج کی مدد نہیں لی جاتی۔ پولیس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آسکے گا۔ کیونکہ کچے میں راج کرنے کیلئے اور لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے حق میں کرنے کیلئے انہیں ڈاکوئوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس سے سندھ کی حکمراں جماعت بخوبی واقف ہے۔ اس آپریشن کا نتیجہ کچھ جھونپڑیوں کے جلنے اور کچھ چھوٹے کارندوں کے ہلاک کئے جانے سے زیادہ کچھ نہیں نکلے گا
۔ شکار پور میں تعینات ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کچے میں موجود ڈاکوئوں کے سرغنہ مسلح افواج کی جانب سے آپریشن کئے جانے کا سن کر مختلف شہروں میں روپوش ہو گئے ہیں۔ جبکہ اس وقت کچھ ڈاکوئوں نے کچے کے علاقے میں مورچے قائم کر رکھے ہیں۔ دوسری جانب پولیس نے ڈاکوئوں کے فرار ہو جانے کے بعد کچے کے اطراف میں واقع راستے سیل کئے۔ جس کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعد پولیس نے نہایت سست روی کا مظاہرہ کیا اور بجائے کچے کے اطراف کے راستوں کو سیل کرنے کے پولیس کچے میں موجود اپنی بکتر بند گاڑی اور پولیس اہلکاروں سے چھینا گیا اسلحہ لانے کی کوششوں میں لگی رہی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کچے سے نکلنے والے ڈاکو خان پور، سکھر، گڑھی یاسین، سلطان کوٹ، رانی پور اور خیر پور کے علاقوں میں روپوش ہوئے ہوں۔ جہاں سے اب وہ بلوچستان اور دیگر صوبوں کی جانب نکل گئے ہوں گے۔ اس وقت کچے کے علاقے میں کچھ ڈاکو ہی موجود ہیں۔ جو مورچہ بند ہیں۔ اگر مسلح افواج کچے میں آپریشن کرتی بھی ہے تو اب اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ اصل کردار پولیس کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کب کے اپنے ٹھکانے تبدیل کر چکے ہیں۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ شکارپور آپریشن کیلئے کراچی سے پولیس کمانڈوز کے کئی دستے شکار پور پہنچ گئے ہیں۔ جن کے ساتھ شکاری کتے بھی موجود ہیں۔ پولیس کی ایک ٹیم 3 ڈرون بھی اپنے ہمراہ لے کر آئی ہے۔ مگر کچے میں گھنی جھاڑیاں ہونے کی وجہ سے یہ ڈرون ٹھیک طرح سے کام نہی کر پا رہے اور ابھی تک ڈرونز سے کسی بھی ایسے مقام کی نشاندہی نہیں ہو سکی جہاں ڈاکو موجود ہوں۔ جلد کچے میں کتوں کی مدد سے پولیس آپریشن کا آغاز کرے گی۔ جس میں نئی بکتر بند گاڑیاں اور پولیس کمانڈوز حصہ لیں گے۔ آپریشن کی مزید تازہ اپ ڈیٹس لینے کیلیے ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئیں۔ مگر ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔