وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ میں طالبان کاترجمان نہیں ہوں پاکستان کاترجمان ہوں،طالبان کومیری ترجمانی کی ضرورت نہیں ان کے اپنے ترجمان موجودہیں،پاکستانی قوم کے مستقبل کے ساتھ سیاست نہیں کرسکتے،وزیراعظم عمران خان نے صاف کہاہے کہ ہم امریکا کوافغانستان میں کارروائی کے لیے ہوئی اڈے نہیں دیں گے مگرایک طبقہ اپنی ناکامیوں سے فرارچاہتاہے اور طرح طرح کے الزامات لگاتا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کیلیے تمام فریقین سے ملاقاتیں کیں،ساری دنیاافغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کی حامی ہے۔ الزام تراشی سے مسئلے کوفائدہ نہیں پہنچے گا اسے مل بیٹھ کر ہی حل کرنا ہوگا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان پرپاکستان کے اثرکاتاثربڑھاچڑھاکرپیش کیاجاتاہے،پاکستان طالبان کوڈکٹیٹ نہیں کرسکتاقائل کرسکتاہے،پاکستان نے مذاکرات میں تعطل ختم کرنے اورانٹراافغان مذاکرات کیلیے طالبان کومذاکرات کی میزپرلانے کیلیے قائل کیا۔ اگر افغانستان کے حالات 90کی دہائی کے ہوگئے تو اس سے صرف افعانستان نہیں پاکستان کا بھی نقصان ہوگا، ہمارے ملک میں 30لاکھ کے قریب افغان مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے حالات خراب ہونے کی صورت میں اس تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے افغان فوج کی تربیت کیلئے انفراسٹرکچربنایا اور20سال میں اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں،امریکہ چاہتاتھاکہ یورپ اورامریکہ پرافغانستان سے د ہشتگردانہ کارروائی نہ ہو،امریکہ کی کارروائیوں سےداعش،القاعدہ کی کمرٹوٹ گئی۔طالبان امریکہ مذاکرات میں طے پایاکہ افغان زمین ان کےخلاف استعمال نہیں ہوگی۔افغان قیادت کاکہناہے اب وہ اپنادفاع کر نے کے قابل ہیں،امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں افغان مسئلے پراتفاق رکھتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے پانچ اگست کے اقدامات جنیواکنونشن کےخلاف تھے،کشمیر رہنماﺅںفاروق عبداللہ،عمرعبداللہاورمحبوبہ مفتی سمیت کسی نے ان اقدامات کونہیں مانااوریکسرمستردکردیا،5اگست کے اقدامات پاکستان نے بھی فور ی مستردکردیے تھے،بھارت کی جانب سے24جون کااجلاس غیرمعمولی عمل ہے۔