احمد نجیب زادے:
شوگر کے مریضوں کیلیے ’’گلوکوز لیول چیکنگ‘‘ کاروایتی تکلیف دہ طریقہ کاراب ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ کیونکہ آسٹریلیا کے طبی سائنسدانوں نے ایک ایسی ’’شوگر ٹیسٹ اسٹرپ‘‘ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ جو ذیابیطس کے مریضوں میں کسی تکلیف کے بغیر محض لعاب دہن یا تھوک کے ذریعے جسم یا خون میں گلوکوز کی سطح کی جانچ کرتی ہے اوراس کا نتیجہ 100 بتایا گیا ہے۔
عالمی خبر رساں ایجنسی روئٹرز اور آسٹریلوی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آسٹریلیا کی معروف یونیورسٹی آف نیو کاسل کے شعبہ فزکس کے پروفیسر پال دستور نے ساتھی محققین کی معیت میں ایک ایسی کیمیائی اسٹرپ کو تخلیق کیا ہے۔ جس میں ایک ٹرانزسٹر میں ایسے انزائم یا خامرے کو شامل کیا گیا، جو انسانی خون میں گلوکوز لیول کو جانچ سکتا ہے۔ پروفیسر پال دستور اور ان کی ٹیم کا کہنا ہے کہ شوگر ٹیسٹ کا یہ بے ضرر طریقہ کار اتفاقیہ طور پر دریافت ہوا۔ جب سائنس دان سولر سیلز پر کام کر رہے تھے۔
دی آسٹریلین جریدے کی رپورٹ کے مطابق عموماً ذیابیطس کے مریضوں کو ان کے خون میں شوگرکی سطح کو جانچنے کی خاطر دن میں کئی بار سوئی یا نوکیلی دھات کی مدد سے انگلی کی پور سے خون کے قطرے کو لے کر مخصوص اسٹرپ پر ٹیسٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذیابیطس کے شکار بیشتر افراد اس سوئی چبھنے سے بچنے کیلیے شوگر ٹیسٹ کے اس عمل کو دن میں کم سے کم کر دیتے ہیں۔ لیکن پروفیسر دستور کی اس نئی تخلیق سے اذیت کا سلسلہ ختم اور شوگر ٹیسٹ کاانداز بدل چکا ہے۔ کیونکہ اس کی مدد سے گلوکوز کا ٹیسٹ خون کی بجائے تھوک کے نمونے سے کیا جا سکتا ہے۔
آسٹریلوی حکومت نے اس انقلابی پروجیکٹ کیلیے 47 لاکھ امریکی یا 63 لاکھ آسٹریلیوی ڈالرز مختص کر رکھے ہیں۔ تاکہ کلینیکل ٹرائلز کی منظوری کی صورت میں ٹیسٹنگ کٹس بنانے کی خاطر ایک فیکٹری بنائی جا سکے۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں ذیابیطس کا مرض انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 1980ء میں اس مہلک مرض کے مریضوں کی کل تعداد دس کروڑ اسی لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی۔ جو 2014ء میں ادارہ عالمی صحت کی رپورٹ کے مطابق 44 کروڑ تک جا پہنچی تھی۔ 2020ء کے ڈیٹا کے مطابق یہ مرض اب تک 62 کروڑ انسانوں کو لپیٹ میں لے چکا ہے اور ہر سال بائیس لاکھ مریض اس مہلک مرض کی پیچیدگیوں کے سبب ہلاک ہو رہے ہیں۔ آسٹریلیا میں اس انقلابی ایجاد کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو نہ صرف شوگر ٹیسٹ بلکہ کورونا وائرس، الرجی، ہارمونز اور کینسر کا ٹیسٹ کرنے کیلیے بھی کامیابی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آسٹریلوی حکومت کا ماننا ہے کہ اس کے مالی تعاون کے ساتھ نیوکاسل یونیورسٹی پہلے ہی سے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ایکسپرٹس اور محققین کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کو ٹیسٹ کرنے کی نئی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے۔ جس کے بارے میں امریکی و آسٹریلوی ماہرین کافی پر اُمید ہیں۔ یونیورسٹی آف نیو کاسل کے پروفیسر پال دستور نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ چونکہ اس شوگر ٹیسٹ اسپیشل اسٹرپ ٹرانزسٹر میں موجود الیکٹرانک مواد سیاہی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس لئے واجبی یا کم قیمت پر پرنٹنگ مشینوں کی مدد سے یہ ٹیسٹ اسٹرپس بنائی جاسکتی ہے۔ اس اسٹرپ سے گلوکوز کا ٹیسٹ خون کی بجائے تھوک کے نمونے سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کلینیکل ٹرائلز میں سینکڑوں کی تعداد میں شوگر کے آسٹریلوی مریض شامل ہیں اور ان کے جسم میں گلوکوز لیول کی جانچ کیلیے یہ طریقہ اب تک 100 سو فیصد کامیاب رہا ہے۔ اگر ان سٹرپس کے کلینیکل ٹرائل کامیاب ہوتے ہیں تو آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ان ٹیسٹ کٹس کو تیار کرنے کی فسیلیٹی قائم کرنے کے لیے 63 لاکھ (آسٹریلین) ڈالر کا امدادی فنڈز دیا جائے گا۔
پروفیسر دستور کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو مستقبل میں کووڈ انیس کے ٹیسٹ سمیت الرجی، ہارمونز اور کینسر کی جانچ میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے طبی آلات اور خاص طور پر سینسرز کے بارے میں ہمارا سوچنے کا انداز یکسر تبدیل ہو گا۔ کیونکہ ہم ان کو انتہائی کم قیمت پر پرنٹ کرسکتے ہیں۔ یہ حقیقی انقلاب ہے جو غریب و متمول ممالک میں بالخصوص ذیابیطس اور بالعموم کینسر اور کووڈ سمیت ہر قسم کی الرجی اور امراض کی بے ضرر اور کم قیمت جانچ کیلئے ہے۔
آسٹریلوی سائنسدانوں نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ اب دنیا بھر کے ذیابیطس کے مریض بغیر کسی تکلیف کے اپنے لعاب دہن کی مدد سے کسی بھی وقت خون میں گلوکوزکا لیول چیک اور ر یکارڈ کر سکیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کیے گئے ایک قومی سروے 16-2017ء کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 26 فیصد حصہ ذیابیطس کا شکارہوچکا ہے۔ اِس سروے کے مطابق ملک کی آبادی میں 20 سال کی عمر سے زیادہ کے ساڑھے تین کروڑ سے پونے چار کروڑ پاکستانی شہری اِس مرض کا شکار ہیں۔
قومی سروے کے یہ نتائج ان اندازوں اور توقعات سے کہیں زیادہ ہیں، جو پالیسی سازوں اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے حکام نے اِس بیماری کے تناظر میں لگائے تھے۔ قومی ذیابیطس سروے کا انعقاد بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائی بٹالوجی اینڈ اینڈو کرائینولوجی نے وزارتِ صحت، پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل اور عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے کروایا تھا۔