سجاد عباسی:
کئی روز کی کشمکش کے بعد آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں ارب پتی بزنس مین سردار تنویر الیاس خان اپنے مضبوط ترین حریف سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف آزاد کشمیرکے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو پچھاڑنے میں بظاہر کامیاب ہوگئے۔
تین روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے اس اہم ترین منصب کے امیدواروں کی دوڑ میں شریک نصف درجن کے قریب نومنتخب ارکان اسمبلی سے علیحدہ علیحدہ مختصر ملاقاتیں کیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ ملاقاتیں وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کے انٹرویو سے متعلق تھیں۔ وزیر اعظم سے شرف ملاقات حاصل کرنے والوں میں دو مضبوط ترین امیدواروں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سردار تنویر الیاس خان کے علاوہ مظفر آباد سے تعلق رکھنے والے خواجہ فاروق احمد اور نو منتخب رکن قانون ساز اسمبلی اظہر صادق بھی شامل تھے۔ اس کے بعد اگلے روز حلقہ ایل اے 13- سے منتخب رکن انصر ابدالی اور ایل اے 18 سے قیوم نیازی کو بھی خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد لاکر ان کی وزیر اعظم سے ملاقات کرائی گئی۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بعض تبصروں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ حلقہ 13 اور 18 کے حوالے سے وزیر اعظم کو کسی اہم روحانی شخصیت نے مشورہ دیا تھا۔ تاہم واقفان حال کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ملاقاتیں ’’فریب داستاں‘‘ کے طور پر کی گئیں۔ کیونکہ وزارت عظمیٰ کے دو اہم ترین امیدوار بیرسٹر سلطان اور تنویر الیاس خان ہی تھے۔ جن میں سے ہر دو کی اہمیت مسلم تھی۔ اول الذکر کو طویل سیاسی کیریئر اور آزاد کشمیر کی سب سے بڑی برادری کے نمائندے کی حیثیت سے دور تک پھیلی جڑوں کی وجہ سے نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔ تو آخر الذکر کی حالیہ الیکشن میں جوڑ توڑ کے ذریعے ناقابل فراموش خدمات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا تھا۔
’’امت‘‘ نے اس حوالے سے آزاد کشمیر کی سیاسی نبض پر ہاتھ رکھنے والے ایک سینئر تجزیہ کار سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ہاکی میں حریف کو دائیں اور بائیں سے الجھاکر گول کیا جاتا ہے۔ یہاں کرکٹ کے کپتان کم و بیش وہی کام کر رہے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے لئے زیادہ چانس شروع سے سردار تنویر الیاس ہی کا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں انتخابی مہم کے دوران اس طرح کھلی چھٹی نہ دی جاتی کہ انہوں نے بھمبر سے نیلم (آزاد کشمیر کے ایک کونے سے دوسرے کونے) تک نہ کوئی حلقہ دیکھا اور نہ سیاسی جماعت۔ ہر طرف کھل کر دائو پیچ آزمائے اور پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ ان کا کہنا تھا کہ سردار تنویر الیاس کی سیاسی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے عبدالرشید ترابی جیسے نیک نام سیاسی رہنما سے بھی بارگیننگ کرکے انہیں اپنے حق میں دستبردار کرالیا۔ (یہ الگ بات ہے کہ اس کی قیمت انہیں سیاسی کیریئر اور نیک نامی قربان کرکے ادا کرنا پڑی)۔
ذرائع کے مطابق اب تک طے پانے والی انڈر اسٹینڈنگ کے مطابق سردار تنویر الیاس کو وزیر اعظم آزاد کشمیر، جبکہ ان کے مضبوط ترین حریف سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان کو صدارت کا منصب دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بیرسٹر سلطان جو سیاست میں کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائم رہنے کے ساتھ ساتھ اب تک ریکارڈ 9 مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ جن میں سے تین مرتبہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ رکھ رکھائو اور بندشوں میں قید صدارت قبول کرنے کے لئے خوش دلی سے آمادہ نہیں ہوئے۔ بلکہ قیادت نے انہیں مشکل سے اس ’’قربانی‘‘ کے لیے آمادہ کیا۔ بیچ میں ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ بیرسٹر سلطان نے وزیر اعظم نہ بنائے جانے کی صورت میں اپنے حامی 12 ارکان اسمبلی کا گروپ الگ کر کے اپنے حریف کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ تاہم اب ذریعے کے مطابق وہ اس شرط پر وزارت عظمیٰ سے دستبرداری کے لیے آمادہ ہوئے ہیں کہ انہیں صدر بنانے کے علاوہ ان کی خالی ہونے والی نشست پران کے صاحبزادے کو منتخب کرانے کے بعد نہ صرف ان کو ریاست میں تگڑی وزارت دی جائے گی بلکہ ان کے نامزد کردہ معتمد افراد کو بھی وزارتوں میں اہم حصہ ملے گا۔
ذرائع کے مطابق بیرسٹر سلطان اور سردار تنویر کے درمیان ٹائی پڑ جانے کی صورت میں جس تیسری شخصیت خواجہ فاروق احمد کو وزیر اعظم بنائے جانے کا امکان تھا۔ اب نئے سیٹ اپ میں انہیں اسپیکر کا اہم عہدہ دیا جائے گا۔ وزارت عظمیٰ کے لئے چوتھا اہم نام بھمبر سے تعلق رکھنے والے مضبوط سیاسی اور خاندانی پس منظر کے حامل چوہدری انوارالحق کا لیا جارہا تھا۔ جو بیرسٹر سلطان کی طرح چوہدری برادری سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق ان کو اس لئے ڈراپ کیا جا رہا ہے کہ ان کی بیرسٹر سلطان سے سیاسی مخالفت اس قدر شدید ہے کہ ان کی نامزدگی کی صورت میں بیرسٹر گروپ کا ردعمل زیادہ سخت ہو سکتا تھا۔ واضح رہے کہ انوارالحق چوہدری کے بھائی انعام الحق ریٹائرڈ جرنیل ہیں۔ جو کچھ عرصہ سیکریٹری دفاع کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
’’امت‘‘ نے آزاد کشمیر کی سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے باخبر ایک ذریعے سے استفسار کیا کہ جب معاملہ دو یا تین لوگوں کے درمیان مقابلے کا تھا تو پھر نصف درجن لوگوں کو بلاکر انٹرویو کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ انٹرویو کسی ایک امیدوار کے حق میں دیگر کی حمایت حاصل کرنے یا انہیں دستبردار کرانے کے لئے بھی تو ہو سکتے ہیں۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ البتہ اس بار سوشل میڈیا کے غیر معمولی فعال (Hyper Active) ہونے کی وجہ سے چیزیں اوپن ہو رہی ہیں۔ ماضی میں تو یہ بھی ہوتا تھا کہ اہم عہدے کے امیدواروں کو ان کی ’’فائلیں‘‘ دکھاکر کہا جاتا تھا کہ آپ کو فلاں کی حمایت کرنا ہے اور پھر حکم کی تعمیل ہوتی تھی۔
ذرائع نے امکان ظاہر کیا کہ اگرچہ وزارت عظمیٰ کے حوالے سے حتمی فیصلہ ہوچکا ہے تاہم دو اگست کی رات تک اس کا اعلان کیے جانے کا چانس کم ہے۔ اس لئے کہ دو اگست کو مخصوص نشستوں پر ووٹنگ ہونی ہے۔ جو خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتی ہے۔ مخصوص نشستیں چونکہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔ لہٰذا ایک آدھ ووٹ بھی ادھر ادھر ہوجانے سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ تین اگست کو اسمبلی اجلاس بلایا گیا ہے۔ جس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگا۔ نیا اسپیکر ہی اجلاس کو آگے بڑھائے گا۔ ذرائع کے مطابق پانچ اگست کو وزیر اعظم عمران خان مظفر آباد جارہے ہیں۔ یاد رہے کہ اسی تاریخ کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر آئینی دہشت گردی کے ذریعے اس کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ وزیر اعظم اس روز آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ اس سے پہلے ہی وزیر اعظم اور کابینہ ارکان کے نام فائنل کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کے معاملے پر اگر کوئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو پھر پنجاب کی طرح کوئی بزدار فارمولا اب بھی بروئے کار آسکتا ہے۔ مگر اب تک کی صورت حال میں تنویر الیاس کا پلہ بھاری ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ دو سال بعد پاکستان میں الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ جو اس سے پہلے بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی کو آزاد کشمیر میں ایسا شخص چاہئے جو انہیں مالی مدد بھی فراہم کرے گا۔ اب اس معیار پر کوئی اور تو پورا اتر نہیں رہا۔ بیرسٹر سلطان تو خود انتخابی اخراجات بھی برادری کے لوگوں سے رقم لے کر کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ عام حالات میں بھی پارٹی اور قیادت کے لئے بطور انویسٹر سردار تنویر الیاس ہمہ وقت دستیاب رہیں گے۔ ایسی شخصیت کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
ذریعے کے مطابق تنویر الیاس کو جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے واحد رکن کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر کے ہر ضلع سے انہوں نے ایک دو ارکان کی حمایت پہلے سے حاصل کر رکھی ہے۔ رہی بات مہاجرین کی نشستوں سے منتخب ہوکر آنے والوں کی۔ تو اس پر پنجاب حکومت کا بھی کچھ نہ کچھ اثر رسوخ ہوگا۔ جہاں تنویر الیاس وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے عہدے پر متمکن ہیں۔ ذرائع کے مطابق اب تک کی اطلاعات اور تجزیوں کے مطابق سردار تنویر الیاس وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے لاسٹ فیورٹ امیدوار بن کر سامنے آگئے ہیں۔ تاہم اگر سیاست کو ممکنات کے کھیل کے طور پر دیکھا جائے تو آخری لمحوں میں بھی کوئی ’’اپ سیٹ ‘‘ ہوسکتا ہے۔
بیرسٹر سلطان کی سیاسی طاقت ہی ان کی کمزوری بن گئی
آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کے لئے اگرچہ تحریک انصاف کے پاس بیرسٹر سلطان کے لیول کا کوئی اور رہنما موجود نہیں تھا۔ یہ بات تمام حلقے تسلیم کرتے ہیں کیونکہ طویل سیاسی کیریئر ، تجربے اور تحریک انصاف سے وابستگی کی بنیاد پر وہ مضبوط ترین امدیوار ہیں جس کا دور دور تک کوئی مقابلہ نہیں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی طاقت ان کی خامی یا کمزوری بن کر سامنے آئی ہے کیونکہ وزیراعظم بنائے جانے کی صورت میں ان سے اس درجے کی ’’تابعداری‘‘ کی توقع نہیں رکھی جاسکتی جو سیاسی طور پر کمزور پس منظر رکھنے والے کسی رہنما سے ہوسکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرسٹر سلطان کو حالیہ الیکشن میں منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے 26 میں سے کم از کم 12 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ یہ سب لوگ سوشل میڈیا پر اپنے حامیوں کے ذریعے بیرسٹر سلطان کے حق میں مہم چلارہے ہیں۔ جبکہ انتخابی مہم کے دوران ’’بیرسٹر سلطان وزیراعظم ‘‘ کے نعرے بھی لگتے رہے ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد دیگر رہنمائوں کی طرح بیرسٹر سلطان نے بھی رسمی طور پر یہی بیان دیا کہ انہیں وزارت عظمیٰ کے حوالے سے قیادت کا فیصلہ تبدیل ہوگا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرسٹر کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران ہی خود کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بناکر پیش کرنا اور الیکشن کے بعد بھی اس حوالے سے جارحانہ مہم کو قیادت نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے اور یہی سرگرمیاں انہیں پاور پالیٹکس سے دور کرکے ممکنہ طور پر صدارت کے منصب کے لئے آمادہ کرنے کا سبب بنی ہیں۔
دوسری طرف سردار تنویرالیاس کا گروپ جہاں حالیہ جیت کا مکمل کریڈٹ خود لینا چاہ رہا ہے وہیں وہ بیرسٹر سلطان کے گروپ کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں جب سردار تنویر فیکٹر سامنے نہیں آیا تھا تو بیرسٹر سلطان کی قیادت میں پارٹی صرف دو نشستیں جیت سکی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں روایتی طور پر جماعت کا صدر یا پارلیمانی لیڈر ہی قائد ایوان بنتا رہا ہے۔ جیسے گزشتہ الیکشن میں فاروق حیدر خان اوراس سے پہلے پی پی کے چوہدری عبدالمجید وزیراعظم متنخب ہوئے تھے۔ مگر اس بار ابتدا ہی سے بیرسٹر سلطان اور تنویرالیاس کی سربراہی میں دو دھڑے سامنے آگئے تھے۔