اقبال اعوان:
کورنگی کے علاقے مہران ٹائون میں فیکٹری آتش زدگی واقعے میں جاں بحق ہونے والے نوجوان کاشف کے والد ذوالفقار کی حالت سنبھلنے لگی ہے۔ انہیں جناح اسپتال میں جواں سال بیٹے کی جھلسی لاش دیکھ کر دل کا دورہ پڑا تھا۔ جس کے بعد نیوز چینلز میں ان کی وفات کی خبریں نشر ہوگئی تھیں کہ بیٹے کی لاش دیکھ کر باپ صدمے سے چل بسا۔ فیکٹری میں جاں بحق افراد کے ورثا کا کہنا ہے کہ ان کے دو مطالبات ہیں کہ فیکٹری مالکان کو ہر صورت گرفتار کر کے ان کی لاپرواہی کے باعث 16 قیمتی جانیں ضائع ہونے پر سزا دی جائے۔ جبکہ سندھ حکومت مرنے والوں کے اہل خانہ کیلئے مالی امداد کا اعلان کرے۔ جاں بحق ہونے والے مزدوروں میں بعض اپنے گھروں کے واحد کفیل تھے۔ کورنگی صنعتی ایریا تھانے میں فیکٹری واقعہ کے حوالے سے سرکاری مدعیت میں لاپرواہی سے جانوں کے ضائع ہونے کے حوالے سے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ واضح رہے کہ جمعہ کی صبح کورنگی مہران ٹائون میں واقع کیمیکل فیکٹری میں آگ لگ گئی تھی اس دوران 16 مزدوروں کی لاشیں جناح اسپتال لائی گئی تھیں جبکہ مرنے والوں کے ورثا وہاں اپنے پیاروں کی جلی لاشیں دیکھ کر صدمے سے نڈھال تھے۔ اس دوران فیکٹری ورکر کاشف کی لاش دیکھ کر اس کے وہاں آنے والے ضعیف العمر باپ ذوالفقار پر دل کا دورہ پڑا، جن کو کارڈیو لے گئے تھے۔ رات گئے خبریں نشر ہوئیں کہ باپ بھی صدمے سے چل بسا ہے۔
امت ٹیم نے ہفتے کی دوپہر فیکٹری جا کر وہاں کی صورت حال دیکھی۔ فیکٹری کے مرکزی دروازے کے عین سامنے گلی پار ایک کچے گھر کے آگے لوگ جمع تھے اور حادثے میں جاں بحق ہونے والے کاشف کی تدفین کر کے لوٹے تھے۔ ان کے والد ذوالفقار سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کی صبح فیکٹری میں جب آگ لگی تھی تو فرسٹ فلور پر میرا بیٹا کاشف موجود تھا اور کھڑکی پر گرل لگنے، اوپری منزل اور نچلی گرائونڈ فلور کی جگہ پر آنے والے زینے کے گیٹوں پر تالے لگے ہونے کی وجہ سے دوسروں کی طرح وہ بھی اندر پھنسا ہوا تھا۔ آگ لگنے کے دوران دھوئیں سے اس کی حالت خراب ہو گئی تھی اور گھر کے سامنے والی کھڑکی میں دیگر افراد کے ساتھ کاشف بھی ماں باپ، بھائیوں کو دیکھ کر مدد کیلئے چلا رہا تھا۔ ہر رشتے دار تڑپ رہا تھا ایک گھنٹے کے تک کاشف کھڑکی سے نظر آتا رہا۔ پھر نیچے گر کیا اور دوبارہ نظر نہیں آیا۔ اس کے بھائیوں نے فیکٹری کے گیٹ پر جاکر اندر گھسنے کی کوشش کی کہ بھائی کو بچا سکیں تو چوکیدار نے ان کو ڈنڈے مارے اور ڈیڑھ دو گھنٹے بعد لاشیں نکالی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فلاحی ادارے والے لاشیں چادروں میں لپیٹ کر جناح اسپتال لے کر جارہے تھے اور ہر لاش پر میں اور بیٹے آگے جاتے تھے، تاہم کاشف کے حوالے سے کچھ پتا نہیں چلا تھا اور جب میں جناح اسپتال گیا تو مردہ خانے میں لاشیں پڑی تھیں، ان میں کاشف کو تلاش کر لیا۔ میرا دل صدمے سے پھٹ رہا تھا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا تھا اس کے بعد دوسرے دن یعنی ہفتے کی صبح ہوش آیا تو گھر میں تھا۔ بیٹے کاشف کی میت تدفین کے لیے لے کرجانا تھی، بیٹے کو دفن کر کے آگیا ہوں۔
اس واقعہ میں غفلت کس کی تھی، متعلقہ اداروں کا کردار کیا تھا؟ سندھ حکومت اس حوالے سے خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔ ان غریب لوگوں کا جواں سالہ بیٹا چلا گیا۔ گھر کے صحن سے انہیں وہ کھڑکی نظر آتی ہے اور گمان ہوتا ہے کہ شاید کاشف کھڑکی میں کھڑا ہو۔ فیکٹری کو علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر نے سیل کر دیا تھا۔ تاہم ورکرز آئے تھے ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت مالی امداد کرے اور مالک سمیت دیگر ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ کورنگی صنعتی ایریا تھانے میں سرکار مرعیت ایس ایچ او طارق آرائیں کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 1182/21 زیردفعہ 322 ت پ 34 ت پ درج کیا گیا۔جبکہ پانچ افراد فیکٹری مالک علی میخا، سپروائزر عمران زیدی اور ظفر کے علاوہ چوکیدار سید زرین اور ذمہ دار ریحان کو نامزد کیا گیا ہے۔ تفتیشی افسر عزت خان وگن نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تاحال کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔ چھاپے مارے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی فیکٹری مالک اور دیگر عملے کو غفلت، لاپرواہی کے جرم میں فٹ کیا ہے اور گرفتاری کے بعد آگے مزید دفعات وقت کے ساتھ ساتھ لگائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیکٹری کے اندر جو صورت حال بنی۔ 16 قیمتی جانوں کے زیاں میں ایمرجنسی کے دوران کیے جانے والے اقدامات کا فقدان سامنے آیا۔ تمام میتیں ورثا لے جا چکے ہیں۔ فیکٹری کے اندر آگ لگنے کی وجہ اور کہاں سے شروع ہوئی، اس حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں۔ فیکٹری کے وہاں سے آگ کے بعد نکلنے والے ورکرز، عینی شاہدین سے بیانات لیے ہیں۔ خفیہ کیمرے سے چھان بین کررہے ہیں۔ فرسٹ فلور کی سیڑھیوں کے نیچے عاضی کچن تھا، وہاں شارٹ سرکٹ یا آگ کی چنگاری سے آگ لگی۔ کرائم سین، فرانزک اور دیگر لیبارٹری ٹیسٹ بھیجے ہیں تحقیقات جاری ہیں۔