امیر عبدالرحمن خان والی ٔ کابل کے والد امیر دوست محمد خان کا واقعہ ہے کہ اس کے ملک پر کسی نے چڑھائی کی، اس کی سرکوبی کیلیے اس نے ایک فوج اپنے ولی عہد شہزادے کے ہاتھ بھیجی۔ دو تین دن کے بعد اطلاع آئی کہ شہزادے کو شکست ہوئی اور وہ دوڑتا ہوا آ رہا ہے اور دشمن اس کے پیچھے ہے۔ اس پر بادشاہ کو بہت صدمہ ہوا اور کئی غم سوار ہوئے۔ شکست کا غم، شہزادے کا غم، شہزادے کی کمزوری کا اور قوم کی ملامت کا غم۔ تو وہ اس غم کے اندر محو ہو کر گھر آیا اور بیگم صاحبہ سے تمام قصہ سنایا۔
بیگم نے کہا یہ سارا قصہ غلط ہے۔
امیر نے کہا: سی آئی ڈی کی رپورٹ ہے۔ وہ کیسے غلط ہو سکتی ہے؟ مگر بیگم نہ مانی کہ شکست ہرگز نہیں ہو سکتی تو بادشاہ گھر سے نکل آیا کہ یہ عورت ہے، یہ مرغی کی ایک ٹانگ ہی ہانکے گی۔ دوسرے دن اطلاع آئی کہ وہ خبر غلط ہے۔ شہزادہ فتح پا کر واپس آ رہا ہے۔ بادشاہ خوشی خوشی گھر گیا اور بیگم سے کہا: واقعی تمہاری بات سچی رہی کہ شہزادہ کامیاب ہو کر آ رہا ہے۔
اس پر بیگم نے شہزادے کی سلامتی اور فتح یابی پر خدا کا شکر ادا کیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تجھے کیسے معلوم ہوا تھا کہ شکست نہیں کھا سکتا، کیا دلیل ہے تیرے پاس کہ میری پوری حکومت کو تو نے جھٹلایا؟ اس نے کہا کہ کچھ نہیں صرف رب تعالیٰ نے میری لاج رکھ لی ہے، یہ میرا راز ہے، میں اس کو فاش نہیں کرنا چاہتی۔
آخر اصرار کرنے پر بتایا کہ جب یہ شہزادہ میرے پیٹ میں آیا تو میں نے اس وقت سے عہد کر لیا تھا کہ میرے پیٹ میں حرام تو دور کی بات ہے، کوئی مشتبہ لقمہ نہیں آنا چاہیے، اس لیے کہ حلال غذا سے اچھی طبیعت اور اچھے اخلاق بنتے ہیں اور حرام غذا سے طبیعت فاسد ہوتی ہے اور اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ شہزادہ نو مہینے تک میرے پیٹ میں رہا اورایک لقمہ غذا کا میں نے ایسا نہیں کھلایا جو مشتبہ ہو، اس لیے اس کے اخلاق رذیلہ اور برے نہیں ہو سکتے۔ شہید ہونا یہ اچھا خلق ہے اور پشت پھیرنا اچھا خلق نہیں۔ شہزادہ شہید تو ہو سکتا ہے اور کٹ کٹ کر مر سکتا ہے، مگر پشت پھیرکر فرار نہیں ہو سکتا اور پھر اس پر بس نہیں کیا، بلکہ جب یہ شہزادہ پیدا ہوا تب بھی مشتبہ غذا استعمال نہیں کی، تاکہ اس غذا سے دودھ بن کر اس کے اخلاق پر اثر انداز نہ ہو اور جب دودھ پلاتی تو وضو کرکے اور دور رکعت نفل ادا کرکے پلاتی، اس لیے ان چیزوں سے شہزادے کے اخلاق بہت بلند ہونے چاہئیں۔ میں نے تمہاری ساری فوج اور حکومت کی بات کو جھٹلایا، مگر اپنے قول سے باز نہ آئی۔
اس واقعے کو بیان کرکے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ فرماتے تھے:
جب امیر دوست محمد کی بیگم اتنی متقی بن سکتی ہے، جبکہ آرام و عیش کے تمام اسباب موجود ہیں۔ تخت پر بیٹھ کر متقی بن سکتی ہے تو ہماری آج کل کی بہنیں جھونپڑیوں میں رہ کر کیوں کامل نہیں ہو سکتی ہیں جو رکاوٹیں ان کو تھیں، وہ تمہیں نہیں۔ (خطبات حکیم الاسلام)