امریکی کیمپوں میں موجود ہزاروں افغان شہری مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔فائل فوٹو
 امریکی کیمپوں میں موجود ہزاروں افغان شہری مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔فائل فوٹو

امریکہ میں افغان پناہ گزینوں کو سیکیورٹی رسک قرار دیدیا گیا

امریکہ میں پناہ گزین افغان شہریوں کی ڈیجیٹل نگرانی شروع کر دی گئی۔ بائیڈن حکومت کی ہدایت پر بچوں اورخواتین سمیت تمام افغان شہریوں، امریکی افواج کے ملازمین سمیت ترجمانوں کو امریکی ایئر بیس پرقیدیوں کیلیے استعمال ہونے والے ریڈیو کالرز پہنا دیئے گئے ہیں۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی حکومت اورافواج کی جانب سے افغان باشندوں کو مشتبہ قرار دے دیا گیا ہے اور ان کو امریکہ میں سلپ ہونے کے خدشے پر ریڈیو کالرز پہنائے گئے ہیں تاکہ ان کی ڈیجیٹل نگرانی کی جاسکے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق جوائنٹ بیس میگوائر ڈیکس لیک ہرسٹ امریکہ میں ان آٹھ مقامات میں سے ہے۔ جہاں ہزاروں افغان باشندوں اور سرکاری ترجمانوں کی ’’میزبانی‘‘ کی جارہی ہے۔ یہ افغان شہری گزشتہ دنوں افغانستان چھوڑ کر امریکی محکمہ دفاع اور افواج کی اعلیٰ قیادت کی مدد و نگرانی میں امریکی ایئر بیس پر پہنچائے گئے تھے۔ لیکن ان افغانوں کو امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے بنائی اور پیش کی جانے والی رپورٹ میں مشتبہ اور خطرناک قرار دیا گیا ہے اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بیشتر افغان امریکی معاشرے کیلئے سیکورٹی رسک ہیں۔ جبکہ بڑی تعداد کو یہ بھی جتا دیا گیا کہ ان کو امریکا میں مستقل قیام کی سہولیات نہیں دی جا سکیں گی۔ ان کو کسی بھی مرحلے پر امریکی سٹیزن شپ کیلیے اہل قرار دینے سے قبل چیکنگ، اسکریننگ اور انٹیلی جنس کلیئرنس لازمی قرار دی گئی ہے۔

امریکی اسٹیٹ نیو جرسی میں موجود ملٹری بیس میں ایک مہینہ قبل آنے والے نو ہزار سے زائد افغان پناہ گزین زندگی کے کئی معاملات میں مشکلات کا شکار ہیں۔ یہاں افغان خاندانوں کے گھروں میں کئی بچوں کی پیدائش ہوچکی ہے اور کئی شادیاں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان افغان خاندانوں کے دلوں میں ایک قسم کی گھبراہٹ اور غیر یقینی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ایک افغان شہری کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکا سہانے خواب سجاکر آیا تھا۔ لیکن اسے یہاں آکر محسوس ہوا کہ ان کی زندگی غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے۔ کیونکہ ان کو احساس ہوچکا ہے کہ وہ مکمل طور پر قیدی بن چکے ہیں۔ ان کو امریکی جیلوں میں قیدیوں اور مجرموں کی نگرانی کیلیے استعمال کیے جانے والے ریڈیو کالرز پہنائے گئے ہیں۔ اس طرح ان کی غیر محسوس طور پر نگرانی کی جارہی ہے۔ ان کو بتادیا گیا ہے کہ کسی بھی حالت میں وہ ملٹری بیس میں اپنے خیموں اور رہائشی ایریا سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اگر ایسا ہوا تو ان کو واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا۔

امریکی تجزیہ نگاروں اورامریکا پہنچنے والے افغان مترجمین اور سابق امریکی ملازمین بھی اس نکتے پر متفق ہیں کہ امریکی ایئر بیس پر لائے جانے والے افغانوں پرامریکی حکومت اور افواج کی جانب سے ایک فیصد بھی اعتماد نہیں کیا جارہا اور اسی لئے ان کو ریڈیو کالرز پہنائے گئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ریڈیو کالر یا ڈیجیٹل پٹیوں میں ننھی کمپیوٹرائزڈ چپ موجود ہے۔ جو نابالغ افغان بچوں کو بھی پہنائی گئی ہیں۔ اس کی مدد سے ان کو کہیں بھی با آسانی ٹریس کیا جاسکتا ہے۔

امریکا پہنچنے والے سینکڑوں افغان پناہ گزینوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ امریکیوں کے رویہ اور نگرانی سمیت تاریک مستقبل کے حوالہ سے بے یقینی اور پریشانی کی وجہ سے ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔ امریکی ملٹری کیمپوں میں موجود افغان پناہ گزینوں نے شکایات کی ہیں کہ ان کو دماغی و نفسیاتی مسائل در پیش ہیں۔ اگرچہ امریکی میڈیا کے مطابق افغان پناہ گزین یہاں ممکنہ طور پر کچھ وقت کے لیے ہیں۔ تاہم سفید خیموں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ مزید افغان پناہ گزینوں کو یہاں امریکا میں افغانستان، ایشیائی ممالک سمیت یورپی خطے سے لایا جارہا ہے۔

رائٹرزکے مطابق ان پناہ گزینوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن نہ نظر آنے والے چیلنجز میں ذہنی صحت سے متعلق مسائل زیادہ ہیں۔ تاہم امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ ان افغانوں کو جو ذہنی و تفکراتی مسائل ہیں۔ ان کی وجہ تکلیف دہ ماحول میں افغانستان چھوڑنا ہے۔ لیکن افغان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ امریکیوں اور ان کے دوستوں کا اٹل تھا۔ ان کو مسائل اس لئے پیدا ہوئے کہ ان کو امریکا پہنچنے کے بعد اپنا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔

ابتدائی مرحلے میں اگرچہ ان کو امریکیوں کا مہمان قرار دیا گیا اور امریکی بیس پر سرکاری خرچے پر خیموں اور شہری و گھریلو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ افغان امریکیوں کیلیے بن بلائے مہمان ہیں اوراب قیدی کے طور پر زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہزاروں افغان خاندانوں کو امریکیوں کی جانب سے جتایا گیا ہے کہ وہ تین ماہ تک سرکاری خرچ پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو نان شبینہ کا خود انتظام کرنا ہوگا اور ملازمتوں سمیت رہائش اور دیگر اخراجات کیلیے خود کوشش کرنا ہوگی۔ ادھر امریکی وزیر دفاع نے پہلی بار امریکی ایئربیس پر ان افغان خاندانوں کے حالات کا جائزہ لینے کیلیے سخت حفاظتی انتظامات میں یہاں کا دورہ کیا۔ ان کو افغان خاندانوں کیلئے دی جانے والی سہولیات کے بارے میں بریفنگ بھی دی گئی۔

ان افغان خاندانوں سے گفتگو کیلیے امریکی یا عالمی صحافیوں کو بھی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کو ان افغان خاندانوں کی بستیوں کے دوروں کی اجازت تھی۔ امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے اگرچہ اس کیمپ کے افغان پناہ گزینوں کا احوال کھل کر نہیں لکھا اور ان کو مجرموں اور ملزمان کی نگرانی والے ریڈیو کالرز کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن اتنا ضرور لکھا ہے کہ افغان پناہ گزین یہاں روانہ ہوئے تو انہیں کلائی میں پہننے کے لیے پٹیاں دی گئیں تھیں۔ جن پر شناختی نمبر درج تھے۔ کچھ افغانوں کو ہاسٹلز میں جگہ مل گئی تھی۔ لیکن باقیوں کو خیموں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ جہاں رہنے والے ہر خاندان کے بیچ صرف ایک کپڑے کا پردہ ہے اور ان کی بظاہر پرائیویسی متاثرہو رہی ہے۔

اگرچہ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ یو ایس بیس پر موجود افغان بستی یا لبرٹی ولیج کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ کب تک آباد رہے گا۔ لیکن امریکی حکومت کے افسران نے وہاں عارضی دفاتر قائم کر لیے ہیں۔ تاکہ افغانوں کے لیے دستاویزی کارروائی مکمل کی جا سکے۔ رائٹرز ایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کے افسران کی کوشش ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی آبادکاری کے عمل کو ہفتوں یا مہینوں میں مکمل کرلیں۔ لیکن واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ امریکی کیمپوں میں موجود افغانوں کی بستیاں جلد اجاڑ دی جائیں گی۔ کیونکہ یہاں قیام و طعام صرف تین ماہ کیلئے ہے۔ اس کے بعد ان کو مزید سخت نگرانی والے کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔