امت رپورٹ:
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میلہ آج اتوار سے سج رہا ہے۔ جس کے ساتھ ہی بکیوں کی چاندی بھی ہوجائے گی۔ خاص طور پر بھارت کے بدنام بکیوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے ایک ہفتہ قبل ہی دبئی اور ابوظہبی میں ڈیرے ڈال لئے تھے۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اورعمان میں مشترکہ طور پر منعقد کرکٹ کا یہ بڑا ایونٹ سترہ اکتوبر سے شروع ہوکر چودہ نومبر تک جاری رہے گا۔ اور مجموعی طورپر پینتالیس میچز کھیلے جائیں گے۔
کرکٹ پر سٹے کی عالمی منڈی سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے تمام میچوں پر مجموعی طور پر تیس سے پینتیس ارب ڈالر کا جوا متوقع ہے۔ اس میں قانونی اور غیر قانونی طور پر کھیلا جانے والا آن لائن اور آف لائن، دونوں طرح کا جوا شامل ہے۔
کرکٹ کے بکیوں نے انگلینڈ، بھارت، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنی فیورٹ ٹیمیں قرار دیا ہے۔ انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے بکی گریک سمیت دیگر عالمی بکیوں کا ماننا ہے کہ اگر کوئی اپ سیٹ نہیں ہوتا تو یہ چاروں ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچیں گی۔ جبکہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کو ’’ڈارک ہارس‘‘ کٹیگری میں رکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بکیوں کی اصطلاح میں ’’ڈارک ہارس ‘‘ ایسی ٹیموں کو قرار دیا جاتا ہے، جو اپنے مدمقابل ٹیموں کے مقابلے میں اگرچہ کچھ کمزور ہوتی ہیں ، لیکن اچانک میچ کا پانسہ پلٹ کر غیر متوقع فتح کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کرکٹ سٹے کی عالمی منڈی سے منسلک ذرائع کے بقول متحدہ عرب امارات میں انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے ہونے والے میچوں کے سبب بدنام بھارتی بکیوں کی ایک تعداد پہلے ہی وہاں موجود تھی۔ جبکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل بدنام بکیوں کی تازہ کھیپ بھی متحدہ عرب امارات پہنچ گئی تھی۔ ان میں بھارتی کرکٹ بورڈ کی زیر سر پرستی غیر قانونی سٹے کا نیٹ ورک چلانے والا چالیس رکنی بکیوں کا ایک گروپ شامل ہے۔ جس کے ارکان دبئی، شارجہ اور ابوظہبی کے پرتعیش فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں آسٹریلوی شہر سڈنی سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے بزنس مین گروپ کے عہدیدار مائیکل کے کارندے بھی شامل ہیں، جو بھارتی بکیوں کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر جوا کراتے ہیں۔ بعد ازاں جوئے کی یہ رقم ممبئی، کولکتہ، بنگلور اور نئی دہلی کے نجی بینکوں میں منتقل کردی جاتی ہے۔ تاہم رقم کی منتقلی کے لئے زیادہ انحصار حوالہ یا ہنڈی پر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ کے بدنام بکی جمی، جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹائون کے رہائشی بکیز ایڈم اور جوناتھن بھی دبئی میں موجود ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت ایک سو سے زائد بدنام بکیز نے عمان اور متحدہ عرب امارات میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے، جن میں اسّی فیصد بھارتی ہیں۔ ان بھارتیوں میں انیل منور، سونی جلان، وجے شرما، لال چند، اشیش کمار، کپاڈیا اور بندیا نامی خاتون بکی قابل ذکرہیں۔ ذرائع کے بقول پچھلے چند برسوں میں کئی بھارتی خواتین بکیز بھی کرکٹ پر سٹے کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ بنی ہیں۔ بندیا بھی ان ہی میں شامل ہے، جس کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔ لیکن وہ کئی برس پہلے ممبئی میں شفٹ ہوگئی تھی۔ اسی طرح برطانوی شہریت رکھنے والا اشیش کمار، مانچسٹر میں رہائش پذیر ہے۔ اس کا ایک ذاتی فلیٹ ممبئی اور دوسرا دبئی میں ہے۔ یہ پہلے دوبار گرفتار ہوچکا ہے اور کرکٹ پر سٹے کی کئی بڑی بکیں چلاتا ہے۔ جبکہ کپاڈیا کی عرفیت سے مشہور بکی ممبئی کا ایک بزنس مین ہے۔ جس کا دبئی میں بھی ذاتی بزنس ہے اور وہ بظاہر ایک آئی ٹی کمپنی کا مالک ہے تاہم اس کا شمار کرکٹ کی بڑے بکیوں میں ہوتا ہے۔کپاڈیا کے کئی عالمی کرکٹرز کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں اور اکثر ان کو لنچ یا ڈنر پر مدعو بھی کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی بکیز نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلنے والے بالخصوص نوجوان کرکٹروں کو ’’ہنی ٹریپ‘‘ میں لینے کے لئے کئی غیر معروف لیکن خوبصورت ماڈلز کو بھی دبئی اور ابوظہبی کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا ہے۔
کرکٹ پر سٹے کے ممبئی اور دبئی میں قائم نیٹ ورک سے منسلک ایک بکی کہتے ہیں ’’ تیس سے پینتیس ارب ڈالر ایک بہت بڑی رقم ہے اور کرکٹ پر جوئے کی ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری سے ناواقف لوگوں کے لئے یقینا جوئے کی رقم کا یہ حجم حیران کن ہوگا۔ لیکن دنیا میں تیزی سے پھیلتی کھیلوں سے متعلق جوئے کی صنعت کے حجم کا تعین کرنے کے لئے ہمیں پانچ برس پیچھے جانا ہوگا۔جب دو ہزار سولہ میں شائع ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’’صرف بھارت میں کرکٹ پر غیر قانونی جوئے کی مارکیٹ کی مالیت سالانہ ایک سو پچاس ارب ڈالر ہے۔ جس میں بھارت کے ہر ون ڈے میچ پر دوسو ملین ڈالر سے زیادہ کا کھیلے جانے والا جوا شامل ہے ۔ یہ معلومات دوحہ میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار اسپورٹس سیکورٹی کے فراہم کردہ اعداد و شمار پر مبنی تھیں۔ اور یہ صرف بھارت میں کرکٹ پر کھیلے جانے والے غیر قانونی جوئے کا حجم ہے۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں کرکٹ پر کھیلے جانے والے غیر قانونی جوئے اور برطانیہ سمیت دوسرے ممالک کے اعدادوشمارکو بھی جمع کرلیا جائے ، جہاں کرکٹ اور دیگر اسپورٹس پر جوا کھیلنا یا شرطیں لگانا قانونی ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیان کردہ اعداد و شمار غیر حقیقی نہیں ہیں۔‘‘ بکی کے بقول یہ اعداد و شمار پانچ برس پہلے کے ہیں۔ ان برسوں کے دوران کرکٹ پر جوئے کی ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری مزید پھلی پھولی ہے۔ جب بھی کوئی نئی آن لائن اسپورٹس بک شروع کی جاتی ہے تو اس میں کرکٹ لازمی شامل ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس لودھا کمیٹی بھارت میں کرکٹ پر جوئے کو قانونی قرار دینے کی سفارش کرچکی ہے۔ لیکن تاحال اس کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔ جسٹس لودھا کمیٹی نے انٹرنیشنل سینٹر فار اسپورٹس سیکورٹی کے اعداد و شمار کو بھی اپنی سفارشات پر مشتمل رپورٹ کا حصہ بنایا تھا۔ اور کہا تھا کہ اگرچہ میچ فکسنگ کو جرائم کی فہرست میں رکھنا چاہئے۔ تاہم برطانیہ کی طرح بھارت میں بھی کرکٹ پر جوئے کو قانونی شکل دینی چاہئے تاکہ نا صرف ملک سے غیر قانونی سٹے کا خاتمہ ہوجائے بلکہ اس اقدام سے سرکاری خزانے کی آمدنی کو ایک نیا ذریعہ بھی میسر آجائے گا۔ کمیٹی کا اندازہ تھا کہ کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں پر جوئے کی عالمی مارکیٹ چارسو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ تاہم اپریل دوہزار پندرہ میں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس کے دوران ایک ماہر معیشت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مالیت چار کھرب ڈالر ہوسکتی ہے۔
بھارت میں کرکٹ پر جوئے کو قانونی شکل دینے کے لئے جسٹس لودھا کمیٹی کی سفارشات پر شہریوں نے اپنا ملا جلا ردعمل دیا تھا۔ تاہم وہاں کھیل کے بہت سے اسٹیک ہولڈرز اور قانونی ماہرین ان سفارشات کے نفاذ کی حمایت کرتے ہیں۔ کرکٹ پر جوئے کو قانونی قرار دینے کی حمایت کرنے والے ان حلقوں کا کہنا ہے کہ گوا (بھارت) میں بہت سارے آف شور کیسینو اور آن لائن جوئے بازی کے اڈوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جہاں جوا کھیلنا نسبتاً آسان کام ہے۔ اسی طرح ممبئی ، کولکتہ اور دہلی بھی کرکٹ پر غیر قانونی جوئے کے بڑے مراکز ہیں۔ جب تمام تر کوششوں کے باوجود اس غیر قانونی جوئے کا خاتمہ ممکن نہیں ہوپا رہا تو کیوں نہ اسے قانونی قرار دے کر فائدہ حاصل کیا جائے۔ ان حلقو ں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اربوں ڈالر کی اس صنعت نے ماضی قریب میں کئی گنا ترقی کی ہے۔ اس ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کئی ممالک نے کرکٹ پر جوئے کو قانونی شکل دے کر اپنے قومی خزانے کی آمدنی میں اضافہ کیا ہے۔ کرکٹ کھیلنے والے جن ممالک میں اس کھیل پر جوا قانونی ہے، ان میں برطانیہ ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، سری لنکا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ ان ممالک میں میچ فکسنگ تو غیر قانونی عمل ہے، لیکن کرکٹ پر شرطیں لگائی جاسکتی ہیں۔
واضح رہے کہ کرکٹ اگرچہ دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں سے ایک بن چکا ہے، تاہم ٹیسٹ میچ کرکٹ کھیلنے کا اسٹیٹس اب بھی مٹھی بھر ممالک کے پاس ہے۔ جن میں نیوزی لینڈ، بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ، پاکستان، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے شامل ہے۔ ان میں سے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش ، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے میں کرکٹ پر جوا کھیلنا غیر قانونی ہے۔ تاہم ٹیسٹ کرکٹ کا اسٹیٹس رکھنے والے ان ممالک کے علاوہ دنیا کے درجنوں ممالک میں کرکٹ کے کروڑوں شائقین موجود ہیں۔ اوران کی بڑی تعداد کرکٹ پرآن لائن اورآف لائن جوا بھی کھیلتی ہے۔ اسی کے سبب کرکٹ پر جوئے کی مارکیٹ اربوں ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ اگر بیٹنگ گائیڈ ڈاٹ کام کو کلک کیا جائے تو ہر ملک میں کھیلوں پر جوا کرانے والی بہترین اور تازہ ترین بیٹنگ ویب سائٹس کے جائزے مل جائیں گے۔
یاد رہے کہ آج اتوار سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دو ہزار اکیس کا پہلا مرحلہ شروع ہورہا ہے۔ جس میں ایسی کرکٹ ٹیموں کے درمیان کوالیفائنگ میچ کھیلے جائیں گے، جو اپنی خراب کارکردگی کی بنیاد پر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں براہ راست شامل ہونے سے قاصر رہی تھیں۔ لہٰذا ان میں سے جو ٹیمیں کوالیفائنگ رائونڈ میں کامیابی حاصل کریں گی ، وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوسرے مرحلے میں پہنچ جائیں گی۔ عمان، پاپوا نیوگنی، بنگلہ دیش، اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، ہالینڈ، سری لنکااور نمیبیا ، کوالیفائنگ کھیلنے والی کرکٹ ٹیموں میں شامل ہیں۔جبکہ ایونٹ کے اصل اور اہم مرحلے کا آغاز تیئیس اکتوبر سے ہوگا۔ جس میں کوالیفائنگ رائونڈ میں کامیاب ہونے والی چار ٹیموں کے علاوہ آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، بھارت، پاکستان، افغانستان اور نیوزی لینڈ آپس میں مدمقابل ہوں گی۔