امت رپورٹ:
حالات نے ایک دم سے ایسا پلٹا کھایا کہ صرف دو ہفتے پہلے تک اگلی مدت کے لیے اقتدار کا خواب دیکھنے والی پی ٹی آئی حکومت کے لیے رواں مدت میں اپنا بوجھ سنبھالنا بھی مشکل ہو گیا۔ بلکہ وہ ان کاندھوں کے لیے بھی ایک ناخوشگوار بوجھ بن گئی جن پر سوار ہو کراقتدار میں آئی تھی۔ 6 اکتوبر کو ایوان اقتدار میں شروع ہونے والے زلزلے کے آفٹرشاکس اب تک تھمے نہیں۔ اس حوالے سے چند گھنٹوں، چند دنوں اورایک دو ہفتے کے اندر معاملات طے پا جانے کے دعوے کرنے والے تمام ’’باخبر حلقوں‘‘، میڈیا کے ’’گروز‘‘ اور ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بحران کا سبب بننے والی اہم ترین شخصیت اس معاملے کو کسی اصول، ضابطے یا روایات کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے ذاتی خواہش اور اقتدار کے دوام کے لیے طول دے رہی ہے۔ اب یہ بات زبان زدِ عام ہو چکی ہے کہ یہ سب کچھ کسی آئینی، قانونی یا سیاسی ماہر کی مشاورت کی بنیاد پر نہیں ہو رہا۔ بلکہ ملکی تقدیر سے متعلق اہم ترین فیصلوں میں ’’غیر مرئی قوتوں‘‘ کو شامل کر لیا گیا ہے۔ اب اس معاملے میں حقیقت اور فسانے کا تناسب تو وقت کی گرد بیٹھنے پر ہی واضح ہوگا۔ تاہم یہ طے ہے کہ امورِ مملکت کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ آنے والے چند دنوں میں اعلیٰ ترین سطح پر تقرر و تبادلوں کے معاملات آئین اور قانون کے مطابق سیٹل ہو جائیں گے۔ مگر اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے حکومت اور اپوزیشن سے جڑے لوگوں اور سیاسی تجزیہ کاروں سمیت ہر شخص کو پریشان کر رکھا ہے۔
دارالحکومت کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اہم ترین قومی ادارے میں غیر معمولی اثرات کی حامل، مگر معمول کی تقرری کو متنازعہ بنانے اور پھر تنازعے کو غیر ضروری طول دینے کے عمل نے حکومت اور اداروں کے درمیان وہ خلیج پیدا کر دی ہے، جسے پاٹنا اب مشکل ہی نہیں، ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ حکومت کی مدت میں چونکہ ابھی مزید دو سال باقی ہیں اور گزرے تین برسوں کے تباہ کن اثرات کا ازالہ ہی ناممکن دکھائی دیتا ہے، جس کا ذمہ دار ان قوتوں کو حکومت سے زیادہ سمجھا جارہا ہے، جنہوں نے نہ صرف عمران خان کے اقتدار کی راہ ہموار کی، بلکہ ہر مرحلے پر براہ راست یا بالواسطہ ان کا دفاع بھی کیا۔ لہٰذا اعلیٰ ترین سطح پر تبدیلی کا عمل ناگزیر سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ تبدیلی اندرونی ارتعاش (ان ہائوس) کے ذریعے لائے جانے کا امکان زیادہ ہے اور اس کے لیے فیصلہ ساز اداروں کو حکومت کی جانب سے دست کش ہو کر اپوزیشن کے لیے کھلا میدان (Level Playung Field) چھوڑنا ہوگا، جو اس سے پہلے فراہم نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دو برس پہلے مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت اچانک بوریا بستر سمیٹ کر دارالحکومت سے لوٹ گیا تھا۔ کیونکہ مبینہ طور پر انہیں کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں جو ہنوز تشنہ تکمیل ہیں۔ تاہم اب کی بار اپوزیشن ایک ایسے موقع پر میدان میں آرہی ہے۔ جب اسے یقین ہے کہ ایوان اقتدار کے در و دیوار اندرونی جھٹکوں سے ہل چکے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تقریباً دو ماہ قبل وزیر اعظم عمران خان کو اعلیٰ ترین سطح پر یہ پیغام پہنچا دیا گیا تھا کہ مقتدر ادارے ان کی حکومت کی نا اہلی کا مزید بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں اور یہ کہ عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے انہیں حکومتی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس کے بعد وزیر اعظم نے معاملات کو قدرے مختلف انداز سے دیکھنا شروع کر دیا۔ یعنی حکومت کی کارکردگی پر توجہ دینے کے بجائے کرسی مضبوط کرنے کے لیے ایسے خطوط پر سوچنا شروع کر دیا، جس سے آگے چل کر معاملات مزید الجھ گئے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اب معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایک طرف متبادل آپشن اور ’’تبدیلی کے اندر تبدیلی‘‘ زیرِ غور ہے تو دوسری جانب فریق ثانی کا خیال ہے کہ فی الوقت اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن وجود نہیں رکھتا اور اگر ایسا کوئی سلسلہ جنبانی شروع کیا گیا تو آئین کے مطابق تحلیل کا آپشن استعمال کر کے نئے الیکشن کی طرف جایا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس خیال کو یہ سوچ تقویت دیتی ہے کہ ایسی صورت میں ایک طرف سویلین بالادستی کی کلغی سر پر سجا کر اگلے الیکشن میں جانے کا موقع ملے گا، تو دوسری طرف کام کرنے کا موقع نہ ملنے کا بہانہ نا اہلی اور کوتاہی کی شدت میں کمی لانے کا سبب بنے گا۔
مگر خود پی ٹی آئی کے سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ آئندہ الیکشن تک معاملات کا ہموار طریقے سے چلنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کا سبب چند اتحادی ووٹوں کی مدد سے حکومت کا تشکیل پانا ہے جو کسی بھی وقت اپنی حمایت واپس لے لیں تو حکومت دھڑام سے آگرے گی اور سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کی حکومت میں شمولیت کس کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے اور حکومت کو سبق سکھانے کے لیے انہیں کس وقت کیا کرنا ہے؟ اس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً ناراضگی کی ریہرسل کر کے کرتے بھی رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ایک اور بد قسمتی یہ ہے کہ خود اس کے اپنے ارکان اسمبلی اس سے بیشتر آزاد حیثیت سے انتخاب لڑ کر آئے ہیں اور ہوا کے رخ کے مطابق فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خود تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ایسی ہے جو بنی گالہ کے بجائے پنڈی کی طرف دیکھتی ہے اور وہ اس امر پر یکسو ہیں کہ دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو بلاتامل کس طرف جانا ہے۔
دوسری طرف اس صورتحال کا سب سے زیادہ فوری اور دیرپا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اس کی بارگیننگ پوزیشن مزید ہو رہی ہے۔ نواز لیگ کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی یا پنجاب میں کوئی بھی تبدیلی ان کا تعاون حاصل کیے بغیر ممکن نہیں ہو گی۔ لہٰذا مرکز میں پی ٹی آئی حکومت کو گرانا مشکل کام نہیں، بلکہ یہ طے کرنا زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان کا متبادل کون ہوگا؟ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی قیادت 2023ء کے الیکشن سے پہلے کے کسی انتظام کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ مگر وہ مائنس عمران خان کسی بھی سیٹ اپ کی حمایت کے لیے تیار ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت شاخ نازک پر بنایا گیا آشیانہ ہے جو ہلکی سی آندھی کے ساتھ بھی تنکوں کی صورت بکھر سکتا ہے۔ یہ بات تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بنانے والے بھی جانتے ہیں اور اس کے مکین بھی اچھی طرح اس کا ادراک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’امت‘‘ نے دارالحکومت میں موجود حکمران جماعت کے ایک سہمے ہوئے ذریعے سے جب سوال کیا کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ایک بار پھر حکومت کے خلاف سرگرم ہو گیا ہے۔ مہنگائی کے نام پر مظاہروں اور مظاہروں کے نام پر تحریک کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس سے حکومتی صفوں میں تو کھلبلی مچ گئی ہو گی؟ ۔
جواب میں ذریعے کا کہنا تھا کہ لگتا ہے انہیں بھی اشارہ مل گیا ہے۔ مہنگائی تو گزشتہ تین برس سے مسلسل بڑھ رہی ہے جس پر خود ہمارے رہنما اور ارکان اسمبلی بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق سراپا احتجاج ہیں۔ اس احتجاج کا آہنگ البتہ قیادت کے سامنے سرگوشیوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ مگر گزشتہ ایک برس کے دوران تو شاید ہی کوئی منتخب نمائندہ ہو جس نے مہنگائی کا رونا نہ رویا ہو۔ کیونکہ ہم خود اپنے حلقوں میں عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ ہمیں زیادہ مزاحمت اور ذلت کا سامنا اس لیے بھی ہے کہ ہماری جماعت میں مڈل کلاس ارکان کی تعداد غالب ہے۔ مگر ہمارے اس احتجاج کو اب تک یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا رہا ہے کہ آپ اسے پچھلی حکومتوں کے اعمال یا بداعمالیوں کا نتیجہ قرار دیں۔ عوام کو حالات کی بہتری کی امید دلائیں۔ حکومت کہیں نہیں جارہی۔ طاقتور حلقے ہمارے ساتھ ہیں اور موقع ملنے پراگلی مدت بھی ہم عوام کے سارے دکھ اور دلدر دور کر دیں گے۔
ذریعے کے مطابق حکومتی جماعت کے ارکان کے لیے یہ چورن بیچنا بھی ممکن نہیں رہا۔ کیونکہ مستقبل کے مزید سہانے خواب دکھانے کے لیے تین سالہ اقتدار میں کچھ تو کرنا ضروری تھا۔ جبکہ ہمارے دامن میں تو کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس پر مستزاد، 6 اکتوبر سے شروع ہونے والا نیا ایپی سوڈ ہے جس پر ارکان پارلیمنٹ، دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت تو درکنار خود کابینہ ارکان بھی ’’ٹک ٹک دیدم‘‘ کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ نہ تو کسی سے مشاورت کی گئی اور نہ اعتماد میں لیا گیا۔ البتہ جب پانی سر سے بلند ہوا تو وزیر اعظم نے کابینہ اجلاس میں فرمایا کہ معاملات اس حد تک پہنچ تو گئے ہیں، تاہم انہیں (سمری کی شرط کے ساتھ) جلد حل کر لیا جائے گا۔ مگر آپ لوگوں کو گھبرانا نہیں ہے۔ ذریعے کے مطابق تب تک بات گھبرانے کے سنگ میل سے کافی آگے نکل چکی تھی اور اب یہ عالم ہے کہ پارٹی رہنما مشاورت تو درکنار، ایک دوسرے سے رابطوں سے بھی گریزاں ہیں اور کسی انہونی کا انتظار کر رہے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کے احتجاج یا تحریک کا معاملہ ہے تو ذریعے کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کا اعلان بھی لوہا گرم دیکھ کر چوٹ مارنے والا معاملہ ہے۔ مہنگائی کوئی دھماکے یا حادثے کے طور پر تو رونما ہوئی نہیں۔ یہ ایک مسلسل جاری عمل ہے، جس نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ اس پر اپوزیشن والے بھی نہ صرف طویل عرصہ خاموش رہے بلکہ صورت حال کو انجوائے کرتے رہے۔ بعض اپوزیشن رہنما توبہ کہتے بھی سنے گئے کہ عوام اب تبدیلی کا مزہ لیں تاکہ انہیں پچھلوں کی قدر آئے۔
’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما سے بھی بالواسطہ طورپراس بات کی تائید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تحریک کے لیے کہیں سے اشارہ نہیں ملا۔ مگر وقت اور حالات کے مطابق فیصلہ کرنا اور اس کے مطابق وارکرنا اپوزیشن کا حق ہے۔ اب اگر حکومت اپنی نا اہلی اور نالائقی کے باعث اپنے بوجھ تلے خود دب رہی ہے اور جس شاخ پر اس کا آشیانہ تھا اسے خود کاٹ رہی ہے تو گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینے کا موقع اپوزیشن کیوں گنوائے؟۔