شیلٹرز ہوم بھی بنائے جائیں گے- انکشافاتی رپورٹ جرمن حکومتی ادارے نے شائع کی۔فائل فوٹو
شیلٹرز ہوم بھی بنائے جائیں گے- انکشافاتی رپورٹ جرمن حکومتی ادارے نے شائع کی۔فائل فوٹو

جرمنی میں مرد خواتین کے تشدد کا شکار

جرمن معاشرے میں مرد تنہا بھی ہے اور خواتین کے تشدد کا شکار بھی۔ یہ انکشاف جرمن حکومتی ادارے کی شماریاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

جرمن میڈیا کا کہنا ہے کہ بائیس فیصد مرد سماج میں تنہائی کا شکار ہیں۔ جریدے ڈائی بلڈ کا کہنا ہے کہ مردوں کو گھریلو یا خواتین کے تشدد سے محفوظ رکھنے کی خاطر اسپیشل ہیلپ لائن بھی قائم کی جاچکی ہے۔ اس ہیلپ لائن پر متاثرہ مرد ٹیلی فون نمبر پر مفت کال کر کے اپنی ’’کتھا ‘‘سنا کر تحفظ کی درخواستیں کر رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ہیلپ لائن قائم کرنے کے بعد مردوں کیلئے دارالحکومت برلن سمیت کئی صوبوں میں ایسے محفوظ گھر یا شیلٹرز بھی قائم کیے جارہے ہیں، جہاں گھریلو زندگی میں بیویوں کے تشدد کا شکار ہونے والے مردوں کو رہائش دی جائے گی۔ جرمنی میں انسداد جرائم کے فیڈرل ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مرتبہ اعدد و شمار سے یقین کیا جاتا ہے کہ 2018ء میں اپنی شریک حیات کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے مردوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2019ء اور اس کے بعد2020ء میں کورونا وبا کے دوران گھریلو تشدد بے انتہا بڑھا ہے۔ جس میں متاثرہ فریق مرد ہیں۔ خواتین کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے مردوں کی اصلی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ لیکن مرد شرمندگی کی وجہ سے ایسے تشدد کا ذکر کرنا کسی فورم پر بھی نہیں کرتے۔ لیکن جب تشدد حد سے گزر جاتا ہے اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے تو مرد ہیلپ لائن کا سہارا لیتے ہیں اور گھریلو یا بیویوں کے تشدد کا شکار 50 فیصد شکایات کنندگان یا تو شکایات واپس لیکر چلے جاتے ہیں یا نصف مرد حضرات کوشش کرتے ہیں کہ تنہائی کی زندگی بسر کریں۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی کے دو اہم صوبائی ریاستوں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور بائرن نے مل کر خواتین کے تشدد کا شکار متاثرہ مردحضرات کیلئے مدد گارٹیلیفون/ ہیلپ لائن کا آغاز کیا ہے، جو اب مصروف دکھائی دیتی ہے۔

جرمن وفاقی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریاست ’ہی سے‘ کے دارالحکومت ویزباڈن میں قائم وفاقی دفتر شماریات کی طرف سے مردوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک رپورٹ میں دلچسپ لیکن افسوسناک انکشاف کیا گیا کہ یورپی یونین کے سب سے زیادہ گھنی آبادی والے ملک جرمنی میں 15 سال سے زائد عمر کے مردوں میں سے 22.4 فیصد مرد تنہا رہتے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ جرمن سماج میں 15 سال سے زائد عمر کی خواتین میں سے قریباً ہر چوتھی خاتون اکیلی رہتی ہے اور یہ خواتین کی بلحاظ آبادی شرح 24.2 فیصد بنتی ہے۔ یہ تعداد لڑکیوں اور جواں سال خواتین کے تحفظ کے حوالے سے انتباہی قرار دی گئی ہے۔

ویزباڈن کے اس وفاقی جرمن دفتر کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق ملک میں اکیلے رہائش رکھنے والے مرد حضرات میں 25 سے 29 برس تک کی عمر کے افراد کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ جو 34.7 بنتا ہے۔ جرمن ماہرین شماریات نے مردوں کی تنہائی یا الگ رہائش کی ایک وجہ یہ بھی بتائی ہے کہ ملک میں ایسے افراد، جو اپنی اپنی رہائش گاہوں کے واحد مکین ہوتے ہیں، عام طورپریا تو طلبا ہوتے ہیں یا پھر ایسے نوجوان جنہوں نے ابھی عملی زندگی میں قدم رکھا ہی ہوتا ہے۔ لیکن جرمنی میں پینسٹھ برس سے زائد عمر کی تقریباً 47 فیصد خواتین اکیلی رہتی ہیں۔ جرمن ماہرین عمرانیات کے جائزوں کے مطابق تنہا رہنے والے مردوں اور خواتین سے مراد ایسے افراد ہوتے ہیں، جن کیلئے سنگل پرسن ہاؤس ہولڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق جرمنی میں مردوں کیخلاف تشدد کی ہیلپ لائن کی بڑھتی ہوئی طلب یا مقبولیت کی وجہ سے جرمن اہلکار اس سروس کے اوقات میں توسیع کر رہے ہیں۔ سال2019ء میں جب سے مردوں کے تحفظ کی اس ہیلپ لائن کا آغاز ہوا تھا، اُس وقت سے اب تک ہزاروں ٹیلیفون کالز موصول ہوچکی ہیں۔ جبکہ کئی کیسز میں مردوں کو اس بات کی بھی شکایات ہیں کہ وہ اپنی سابق پارٹنر یا منکوحہ کے ظلم، دھمکیوں اور تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ مردوں پر تشدد کے حوالہ سے جرمن ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ ’’تشدد‘‘ کسی بھی قسم کا ہو اورکسی بھی صنف کیخلاف ہو۔ اس کو منظرعام پرلایا جانا ضروری ہے ۔ مردوں کیخلاف تشدد کا موضوع اب بھی سماج میں شجر ممنوعہ کا درجہ رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کا اظہار بظاہر احساس شرمندگی اور بدنامی کا سبب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب اس موضوع پر سنجیدگی سے غورکیا جانا بیحد ضروری ہے۔