بھارت سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ملائیشیا سے بھارت لانے میں ناکام مودی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ادارے ’’اسلامک ریسرچ فائونڈیشن‘‘ کے تبلیغی اور رفاہی کاموں پر پابندیوں میں مزید پانچ برس کا اضافہ کر دیا ہے۔
دہلی میں مقیم صحافی امرت کمار سنہا نے بتایا ہے کہ مودی سرکار نے پہلی بار 2016ء میں ’’اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘پر دہشت گردی اور نفرت کے پرچارکا الزام عائد کرکے پابندی لگائی تھی۔ اب اس پابندی میں مزید پانچ برس کی توسیع کر دی گئی ہے۔ پابندیوں کے تحت ’’اسلامی ریسرچ فائونڈیشن‘‘ تبلیغ، فنڈ ریزنگ اور رفاہی کام نہیں کرسکتی۔ اس ادارے کے کروڑوں روپے کے اثاثہ جات اور دفاتر پر بھارت سرکار کا قبضہ ہے۔ بھارتی حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سرکار سمجھتی ہے کہ ذاکر نائیک کی تنظیم اسلامی ریسرچ فائونڈیشن مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان’’تبلیغی سرگرمیوں‘‘کی مدد سے بدامنی پھیلانے کا کام کرتی تھی جس پر پابندی عائد کی گئی تھی اور اب اس میں مزید پانچ برس کی توسیع کردی گئی ہے۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس اپریل 2021ء میں تیسری بار بھارتی قومی تفتیشی ایجنسی ’’اے این آئی‘‘ کی جانب سے انٹرپول کو دی جانے والی ڈیپورٹیشن کی درخواست اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کیخلاف ’’ریڈ نوٹس‘‘ کے اجرا کو مسترد کیا جاچکا ہے۔ اگرچہ اے این آئی اور وزارت داخلہ کی جانب سے انٹرپول کوگزشتہ ماہ اکتوبر2021ء میں چوتھی بار ڈوزیئر پیش کیا جانا طے تھا۔ لیکن بوجوہ اب تک بھارت سرکار، اسلامی مبلغ کیخلاف نیا ڈوزیئر پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بھارتی قومی تفتیشی و انٹیلی جنس ایجنسی اے این آئی کا دعویٰ تھا کہ ایسی مصدقہ اطلاعات و ثبوت و شواہد موجود ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی تقاریر، بیانات اور تبلیغی سرگرمیوں سے متمول حضرات سے چندہ وصول کرتے ہیں اور اسی خطیر چندے کی بنیاد پر نفرت کا دھندا کرتے ہیں اور دنیا بھر میں ایسی سرگرمیوں کو برپا کرنے کا کام کرتے ہیں جو سماج اور دنیا کے امن کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارتی صحافی اتکرش آنند کا کہنا ہے کہ بھارتی انٹیلی ایجنسی کی جانب سے تیار کیے جانے والے ڈوزیئر کو وزارت داخلہ ہند کی جانب سے تحریری شکل میں انٹرپول کے تحت کارگزار’’ایڈ جوڈی کیٹنگ پینل‘‘ کو پیش کیا گیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک چندے کی مدد سے منی لانڈرنگ کرتے ہیں اور اپنی تقاریر سے بھارتی سماج میں منافرت پھیلاتے ہیں۔ اس لیے ان کیخلاف بھارتی درخواست پر ’’ریڈ نوٹس‘‘ کا اجرا کیا جائے اوران کو عالمی پولیس ڈپارٹمنٹ کی مدد سے ملائیشیا سے گرفتار کرکے نئی دہلی کے حوالہ کردیا جائے۔ لیکن انٹرپول پینل نے بھارتی ڈوزیئر اور ریڈ نوٹس کے اجرا کی درخواست کو مسترد کردیا اورکہا کہ چندہ جمع کرنا کوئی غلط کام نہیں۔ اس کو منی لانڈرنگ کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔ جبکہ ذاکر نائیک کی مبینہ منافرت انگیز تقاریر کا بھی کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔ ایسے میں ان کیخلاف ریڈ وارنٹس یا نوٹس کا اجرا نہیں کیا جاسکتا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق انٹرپول کے انکار پر نئی دہلی حکام کا منہ لٹک گیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ادارے کیخلاف پابندی میں توسیع کو اسی جھنجھلاہٹ کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزارت داخلہ ہندنے اپنے ایک تازہ سرکلرکی مدد سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ادارے ’’اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ پر پہلے سے عائد پابندی میں مزید پانچ برس کی توسیع کر دی ہے۔
یاد رہے کہ مودی سرکار نے پہلی بار اس ادارے پر پابندی 2016ء میں عائد کی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا تعلق بھارت کے ساحلی و معاشی حب کہلائے جانے والے شہر ممبئی سے ہے۔ انہوں نے تبلیغ دین کی خاطر اپنا ادارہ بھی وہیں سے قائم کیا تھا۔ لیکن ہندوئوں کی جانب سے تیزی سے اسلام قبول کیے جانے کے واقعات پر مودی حکومت نے ان کی تقاریرکو قابل اعتراض اور تخریبی قرار دیتے ہوئے ان کیخلاف کئی مقدمات درج کئے اوران کی تنظیم پر پابندی بھی عائد کردی تھی۔ بھارتی حکومت چاہتی تھی کہ مجرمانہ نوعیت کے مقدمات میں ان کو گرفتار کرے لیکن وہ بر وقت ملک سے چلے گئے۔ اس وقت وہ ملائیشیا میں موجود ہیں لیکن بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ ان کو کسی نہ کسی طورگرفتارکرکے بھارت لایا جائے اورہندوئوں کو خوش کرکے الیکشن 2022ء میں کامیابی حاصل کی جائے۔