’’روایتی‘‘ گوشت سردیوں میں خصوصی طور پر کھایا جاتا ہے۔فائل فوٹو
’’روایتی‘‘ گوشت سردیوں میں خصوصی طور پر کھایا جاتا ہے۔فائل فوٹو

ویتنامی عوام کتے اور بلیوں کا گوشت کھانے پر بضد

جانوروں کے حقوق کی تنظیم ’’فور پاز‘‘ کے دباؤ پر ویتنامی حکومت نے کتے بلیوں کے گوشت پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس پابندی کو ویتنامی عوام وخواص نے مسترد کردیا ہے اورکہا ہے کہ سردیوں میں بالخصوص اور باقی موسموں میں بالعموم کھایا جانے والا کتے بلیوں کا یہ گوشت ان کیلیے روایت و صحت کا امتزاج ہے، جس کو کسی بھی طور ترک نہیں کیا جاسکتا۔

یاد رہے کہ کمبوڈیا، برما، تھائی لینڈ، چین، کوریا سمیت ویتنام میں کتے بلیوں کا گوشت طاقت کے حصول اور بدقسمتی اور نحوست کو دور کرنے کیلیے تناول کیا جاتا ہے اور صدیوں سے یہی رواج ہے۔ مختلف شہروں میں کتے بلی کا گوشت کھانے کے ٹھیلے لگائے جاتے ہیں، جہاں لوگ دوست احباب کیساتھ کھانا کھانے آتے ہیں۔ شام کے وقت ان ٹھیلے پتھاروں کے گرد فیسٹیول سا سماں ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ تائیوان وہ پہلا ملک ہے جہاں حکومتی سطح پر 2017ء میںکتے کے گوشت پر پابندی عائد کی گئی تھی، جو کارگر بھی ہے۔ لیکن ویتنامی پابندی کو عوام نے مسترد کردیا ہے۔

ویتنام میں کتے بلیوں کے باقاعدہ فارمز ہاؤسز ہیں اور یہاں کتوں اور بلیوں کی افزائش کی جاتی ہے۔ ان کو مرغیوں کے پولٹری اور حیوانات کے کیٹل فارمز کی طرز پر قائم کرکے معاش کمایا جاتا ہے۔ اس وقت ایک محتاظ اندازہ کے تحت ویتنام میں ہر سال پچاس لاکھ کتوں اور پندرہ سے بیس لاکھ بلیوں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ ویتنام سمیت متذکرہ بالا ممالک اور مشرقی ایشیائی ممالک میں سانپوں، اژدھوں، کتے، بلی، خنزیر سمیت تمام اقسام کے رینگنے والے کیڑوں اور حشرات الارض کو بطور خاص کھایا جاتا ہے۔ اس قسم کے گوشت کیلیے لاکھوں دکانیں، ہوٹل اور ریسٹورنٹ وغیرہ ہر وقت خدمات پیش کرنے کیلیے موجود ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ ویتنامی ثقافتی و سیاحتی شہر ہوئی آن میں مقامی حکام نے تحفظ حیوانات کی عالمی تنظیم ’’فور پاز‘‘ کیساتھ بلی اور کتے کے گوشت کی فروخت پر پابندی کا ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس کے تحت ویتنامی سیاحتی پوائنٹس کے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں کتے یا بلی کا گوشت فراہم نہیں کیا جائے گا۔

ویتنامی شہر کے نائب میئر ’’دا ہنگ فوآن‘‘ نے کہا ہے کہ ہم جانوروں کی بھلائی کیساتھ ساتھ شہر کو سیاحتی مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ فور پاز کی سینئر رکن جولی سینڈرز نے اس پابندی پر کہا ہے کہ کتے بلی کے گوشت پر پابندی کا اقدام ایک ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ ہے جو ویتنام کے دیگر علاقوں کے لیے ایک مثال قائم کر سکتا ہے۔ مقامی جریدے ویتنام نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ویتنامی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس پابندی کے اثرات کو جانچیں گے اور اس کے بعد اس پر حتمی پابندی لگانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ویتنام اگر چہ کہ ایک چھوٹا سال ملک ہے، لیکن کتے بلیوں کے گوشت کے استعمال کے حوالہ سے یہ چین کے بعد دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ ویتنام میں ہر سال پچاس لاکھ کے قریب کتوں کا گوشت نحوست دور کرنے کیلئے بھی کھایا جاتا ہے۔

ویتنامی دارالحکومت ہنوئی کے مقامی شہری ’’فان وین کاؤنگ‘‘ نے اے ایف پی سے دوران گفتگو اس پابندی کو غیر ضروری اور ناقابل عمل بتایا اور کہا ہے کہ میرا موقف یہی ہے کہ ویتنامی ثقافت اور غذاؤں میں شامل کتے اور بلی کے گوشت پر کسی کو پابندی لگانا زیب دیتا ہے۔ یاد رکھئے کہ کتے بلی کا گوشت کھانا ہمارا کلچر ہے اور کسی قوم کے کلچر پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ یاد رہے کہ تین سال قبل 2018ء میں بھی ہونائی حکام نے شہریوں کو کتے کا گوشت نہ کھانے کی اپیل کی تھی کیونکہ اس سے دارالحکومت کی بظاہر شہرت متاثر ہو رہی تھی اور یہ لوگوں کو صحت کے مسائل سے بھی دوچار کر رہا تھا۔ لیکن ویتنامی شہریوں نے اس اپیل کو رد کردیا تھا اور شہر سمیت پورے ملک میں بدستور کتے بلی کا گوشت کھایا جارہا تھا، کیونکہ ویتنامی شہریوں کا دعویٰ ہے کہ کتے اور بلی کا گوشت بیمار کرتا نہیں بلکہ بیماریوں کو دور کردیتا ہے۔

ویتنامی میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کتے اوربلی کا گوشت اس قدر مرغوب غذا ہے کہ جرائم پیشہ افراد اور موقع پرست افراد لوگوں کے پالتو جانوروں یا کتے بلیوں کو چوری کرلیتے ہیں اور ان کو بلیک مارکیٹ میں کتا خوروں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ دیہات سمیت ویتنام کے ساحلی و سیاحتی علاقوں میں کتے کے گوشت کا شمار انتہائی خاص غذاؤں میں شمار کیا جاتا ہے اور مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ روایتی طور پر کتے یا بلی کو گوشت چاول سے بنی ہوئی شراب کیساتھ کھایا جاتا ہے۔ ویتنام میں کتے کے مقابلہ میں بلی جس کو مقامی سطح پرچھوٹا چیتا کہا جاتا ہے، کا گوشت پسند تو کیا جاتا ہے لیکن اس کی کھپت کتے کی نسبت قدرے کم ہے۔