اندرونی درجہ حرارت ایک ہزار سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا-فائل فوٹو
 اندرونی درجہ حرارت ایک ہزار سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا-فائل فوٹو

’’جہنم کا دروازہ‘‘ بند کرنے کی تمام کوششیں ناکام

وسط ایشیائی ملک ترکمانستان میں موجود آتشی گڑھے، المعروف ’’جہنم کا دروازہ‘‘ بند کرنے کی تمام تر مقامی کوششیں ناکام ہوگئیں۔

واضح رہے کہ اس گڑھے میں پچاس برس سے آگ بھڑک رہی ہے۔ اس دوران اربوں ڈالر مالیت کی قدرتی گیس ضائع ہو چکی ہے۔ جبکہ اندرونی درجہ حرارت ایک ہزار سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔ مقامی ماہرین کی بار ہا ناکامیوں کے بعد ترکمانی صدر نے آگ بجھانے کیلئے غیر ملکی فرمز سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

مقامی جریدے ’’ترکمانستان‘‘ کے مطابق صدر قربان قلی نے حالیہ احکامات میں اس گڑھے کو پاٹنے اور گیس کے ضیاع کو روکنے کی نئی ہدایات جاری کی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ماضی میں اس آتشی گڑھے کی چوڑائی چند میٹرز تک تھی۔ لیکن مسلسل آگ بھڑکنے کی وجہ سے اب اس کی چوڑائی 70 میٹر اور گہرائی 30 میٹر ہو چکی ہے۔ ماضی میں ترکمان حکومت نے اس مقام پر عوام کے جانے پر پابندی لگا کر سیکورٹی سخت کردی تھی۔ لیکن چند برسوں سے سیاحتی سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اب سالانہ ہزاروں سیاح یہ آتشی گڑھا دیکھنے آتے ہیں۔ خاص طور پر سرد موسم میں یہاں سیاحتی سرگرمیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ جو ٹورسٹ گائیڈز، آپریٹرز اور مقامی سہولت کنندگان کی کمائی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔

ترکمانی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہر سال بھڑکتی آگ کے شعلوں کو دیکھنے، تصاویر بنانے اور نیو ایئر نائٹ منانے والوں کی بڑی تعداد یہاں کا رُخ کرتی ہے۔2021ء کی آخری راتوں میں یہاں سیاحوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے جو اس بھڑکتی آگ کے گڑھے کے پاس موجود تھے۔ ماہرین کے مطابق اس خطہ میں زیر زمین گیس کے ذخائر کئی صدیوں سے موجود ہیں۔ معروف فاتح امیر تیمور لنگ نے اپنی آپ بیتی میں بحر خذر، آذر بائیجان میں آگ کے ایسے ہی گڑھے کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ اسی طرح مشہور سیاح مارکو پولو نے بھی آذربائیجان اور ملحق خطے میں کئی مقامات پر بھڑکتی آگ اور چٹانوں کا ذکر کیا ہے۔

روسی پورٹل ’’ریانووستی‘‘ کے مطابق ترکمانستان کا آتشی گڑھا نصف صدی قبل 1971ء میں سابق سوویت یونین حکام کی جانب سے قدرتی گیس کے ذخائر کی تلاش کے دوران حادثاتی طور پر بن گیا تھا۔ لیکن اس وقت اس میں آگ نہیں لگی تھی۔ تاہم اس میں میتھین گیس کے اخراج کی شدید بو اٹھ رہی تھی۔ بعد ازاں کسی نے اس میں آگ لگا دی اور یوں بھڑکنے والی آگ پچاس برس گزر جانے کے باوجود نہیں بجھائی جا سکی ہے۔ ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ 1971ء میں قدرتی گیس کے اس کنویں کا اوپری حصہ ٹوٹ کراندر گر گیا جس کی وجہ سے یہاں ایک بڑا گڑھا بن گیا جس سے قدرتی گیس مسلسل خارج ہورہی ہے اورآگ مسلسل بھڑک رہی ہے۔

مقامی ٹی وی رپورٹس کے مطابق ترکمانی صدر قربان قلی نے دو روز قبل ہدایت کی ہے کہ قراکم صحرا ئی خطہ میں ’’جہنم کا دروازہ‘‘ کہلائے جانے والے گڑھے میں لگی آگ کو ہر قیمت پر بجھادیا جائے۔ صدر قربان قلی نے کہا کہ انسانی غلطی ہاتھوں بننے والے اس گڑھے کی وجہ سے قدرتی و انسانی ماحول اور اردگرد لوگوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم قدرتی ذخائر کا مسلسل نقصان کر رہے ہیں۔ یہ وہ نقصان ہے جو اصل میں ہمارا نفع تھا۔ اگر ہم اس گڑھے میں بھڑکتی آگ بجھا دیں اور گیس حاصل کریں تو یقیناً ہم بہترین منافع کما سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ 1971ء سے لگنے والی اس آگ کو بجھانے کی کم و بیش 100 کوششیں کی جا چکی ہیں۔ لیکن اب تک کوئی ایک بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ مقامی صحافی غیرت نبیوف کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس گڑھے تک پہنچنے کا راستہ طویل اور دشوار گزار ہے، لیکن پھر بھی ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں سیاح یہاں آتے ہیں اور خاص طور پر پوری رات قیام کرتے ہیں تاکہ تاریکی میں اس سے نکلتی ہوئی روشنی اور حرارت سے لطف اندوز ہوسکیں۔

یاد رہے کہ اس بھڑکتے گڑھے کی جانکاری کیلئے کئی مہم جوئوں نے کوشش کی ہے۔ ایک عالمی شہرت یافتہ مہم جو جارج کورونس نے اس گڑھے میں خصوصی لباس پہن کراترنے کی کامیاب کوشش کی تھی اوراس کے اندر کی سیرکرکے دنیا کو اس کی اصل حقیقت سے آگاہ کیا۔ جارج اس آتشی گڑھے کی تہہ میں کم و بیش 100 فٹ نیچے تک اتراتھا اوراس کی بھڑکتی سطح پرکچھ دیر تک چلا پھرا بھی۔ جارج نے اس وقت خصوصی فائر پروف لباس پہنا تھا اور ماسک کی مدد سے پہنچائی جانے والی آکسیجن سے سانسیں لیتا رہا۔ اس نے اندر کی سطح سے مٹی کے نمونے بھی اکٹھا کیے تھے۔