جاپان کی فوڈ انڈسٹری میں کیڑے مکوڑوں سے تیار ڈشز کی ڈیمانڈ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کئی فوڈ کمپنیوں نے فارم ہائوسز کھول کر کیڑوں کی افزائش اور تجارت شروع کر دی ہے۔
جاپانی جریدے’’ یوری شمبھون‘‘ کا کہنا ہے کہ کیڑوں کو بطورغذا فروخت کرنے کا کام عروج پر ہے۔ بزنس میں شامل افراد کایہ کہنا ہے کہ اس کاروبار میں ان کی دلچسپی کی بنیادی وجہ کیڑوں میں پائی جانے والی غذائیت اور اس کے ماحولیاتی فوائد بھی ہیں۔ اگرچہ جاپان میں کیڑے بطور خوراک برس ہا برس سے استعمال کیے جارہے ہیں۔ لیکن حالیہ ایک دہائی میں کیڑوں کا غذائی بزنس انتہائی کامیاب دکھائی دیتا ہے۔
ٹوکیو یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاپان میں کیڑے مکوڑے کھانے کی ایک قدیم تاریخ اور روایت موجود ہے۔ تلے ہوئے جھینگر جاپان کے دیہی علاقوں میں بچوں کیلئے عام طور پر دستیاب ہوتے ہیں۔ ان حشرات کی غذائیت اورعوامی کھپت کی وجہ سے یہ کاروبار اب ترقی پا رہا ہے اور کئی کاروباری افراد نے ان کی افزائش کے فارم بھی قائم کر دیئے ہیں جہاں تجارتی پیمانہ پر کیڑوں کی افزائش کی جارہی ہے۔ جاپان بھر میں خوراک کے اسٹالز یا ڈھابوں پر مکڑیاں، لاروے، جھینگر، لمبی تھوتھنی والے کیڑوں اور ٹڈوں کی بطور خاص طلب ہے۔
جاپانی پروفیسر تاکاہیٹو واتانابی نے ٹوکیو میں 2019ء میں فوڈ ٹیکنالوجی کی ایک فیکٹری قائم کی تھی اوراس کا نام ’گریلس‘ رکھا۔ پروفیسر تاکا ہیٹوکی کمپنی کے فارم ہائوس میںبڑے سائز کے جھینگروں کی افزائش کی جا رہی ہے۔ کمپنی جھینگروں پر مشتمل خوراک کی مختلف اقسام متعارف کرانے کا بھی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ کمپنی مہر بند ڈبوں میں جھینگر، لاروے اور دیگر اقسام کے حشرات الارض کو فروخت کیلئے مارکیٹوں میں بھیجتی ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ حشرات کے کاروباری فلسفہ کی بنیاد جاپانی سماج میں پروٹین کے ضیاع اور کمیابی کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہے۔ گریلس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ حشرات کی فوڈ پروسیسینگ اور تجارت کا یہ سلسلہ صحت مند خوراک کی فراہمی کی کوشش ہے۔
گریلس کمپنی کے ترجمان فومیا اوکوبو نے میڈیا کو بتایا کہ جھینگر برسوں سے جاپان میں کھائے جاتے ہیں اور اس کیڑے میں بے پناہ غذائیت پائی جاتی ہے۔ فومیا اوکوبو کے مطابق جھینگرکی افزائش ماحول دوست بھی ہے اور اس کام کیلئے زیادہ زمین کی بھی ضرورت نہیں۔ پروفیسر تاکاہیٹو اوران کی ٹیم اس وقت جھینگر سے حاصل ہونے والی غذائیت اور انسانی صحت پر اس کے فوائد کے تعین میں مصروف ہے۔ ریسرچ میں اس بات کا بھی تعین کیا جا رہا ہے کہ جھینگرکو کس انداز میں دوسری خوراکوں کا حصہ بنایا جا سکتا ہے؟ گریلس جھینگرکمپنی کے ترجمان نے بتایا ہے کہ جھینگر کے فوائد کی مناسبت سے حاصل کیا جانے والا تمام ترڈیٹا گریلس کمپنی کا ایک اہم راز ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ خوراک کی کمی کی وجہ سے اب کیڑوں اور مختلف انواع کے حشرات الارض کو بطور انسانی غذا شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ کیڑے پروٹین سمیت کئی اقسام کی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
بعض عالمی محققین کا کہنا ہے کہ اگر کیڑوں کو اسی رفتار سے کھایا جاتا رہا تو یہ دنیا بھر میں ہیومن لائف اور فوڈ سائیکل کو تباہ کرنے کا سبب بن جائے گا۔ جب حشرات ماحول سے غائب ہوجائیں گے تو اس سے انسانی و حیوانی ماحول تباہ ہوجائے گا۔ لیکن اس انتباہ کے باوجود اقوام متحدہ کی ہدایات کے تحت مشرقی ایشیائی اور افریقی ممالک سمیت یورپ بھر میں کیڑوں کی افزائش اورغذائی استعمال میں روز بروز اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ ویتنام، چین، لائوس، تھائی لینڈ، جاپان اور کمبوڈیا حشرات کو باقاعدہ فاسٹ فوڈ کا حصہ بنایا جاچکا ہے۔
کئی چینی محققین کا دعویٰ ہے کہ جھینگر اور ٹڈوں سمیت کئی رینگنے اور اڑنے والے کیڑوں میں کیلشیم، میگنیشم، زنک، فولاد، وٹامنزاور فائبر کی بھاری مقدارموجود ہوتی ہے۔ جبکہ کئی ممالک میں جھینگر کاسمیٹکس اور دوا سازی کی صنعت میں بھی کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مستقبل قریب میں جھینگر اور اسی قبیل کے حشرات سے زرعی فرٹیلائزر بھی تیار کی جا سکیں گی۔