ہمارے پاس ابھی تک وفاق کا جواب نہیں آیا اور اٹارنی جنرل بھی موجود نہیں۔فائل فوٹو
اٹارنی جنرل اورایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب سمیت دیگرفریقین کو نوٹس جاری کردیا۔فائل فوٹو

ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کالعدم،وزیر اعظم،صدر کے احکامات غیر آئینی قرار،قومی اسمبلی بحال

اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی بحال کردی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے پانچ صفر سے متفقہ فیصلہ سنایا۔

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے8 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کی3 اپریل کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی توڑنے کی سفارش جبکہ صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے 3 اپریل کی حیثیت سے بحال کردیا۔

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ غیر آئینی قرار دے دی۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم صدر کو ایڈوائس نہیں کرسکتے تھے، اب تک کے اقدامات غیر آئینی اور غیر قانونی تھے۔ عدالت نے صدر کے عبوری حکومت کے حکم کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل 2022 صبح 10 بجے بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے اور اگر ناکام ہوتی ہے تو عمران خان بطور وزیراعظم اپنا کام جاری رکھیں، اسپیکر سمیت تمام ارکان فیصلے پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔

مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، حکومت کسی صورت اراکین کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کے اہل نہیں تھے لہذا ایوان کو پرانی حیثیت سے بحال کیا جائے اور اسپیکر ہفتے کو دوبارہ اجلاس طلب کریں۔ عدم اعتماد کامیاب ہو تو فوری نئے وزیراعظم کا الیکشن کرایا جائے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان بطور وزیراعظم جبکہ اُن کی کابینہ کے اراکین کی حیثیت بھی بحال ہوگئی، اسی طرح معاونین اور مشیر بھی عہدوں پر بحال ہوگئے۔

فیصلہ سنانے سے قبل چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ الیکشن کے انعقاد کے متعلق الیکشن کمیشن آگاہ کرے گا، بتائیں کیا الیکشن کمیشن انتخابات کراسکتا ہے؟ اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ وہ الیکشن کرانے کیلئے تیار ہیں لیکن حلقہ بندیاں نہیں ہوسکی ہیں، مئی 2021 میں حلقہ بندیاں کرانے پر کام شروع کردیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پورے ملک میں حلقہ بندیاں کرنی ہیں یا پورے ملک کی کرنی ہیں؟ اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ پورے ملک کی حلقہ بندیاں کرنا ہوتی ہیں، انہیں حلقہ بندیوں کیلئے چھ سے سات ماہ چاہئیں ۔چار ماہ حلقہ بندیوں کیلئے اور تین ماہ عبوری حکومت کیلئے چاہئیں۔