امت رپورٹ:
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان تسلسل سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ساری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ان کے اس افسانے کی سراسر نفی ہوتی ہے۔
دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر مجموعی طور پر ایک کروڑ انہتر لاکھ تین ہزار سات سو دو ووٹ لیے تھے۔ جبکہ تحریک انصاف کی مخالفت میں پڑنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد تقریباً دگنی تھی۔ ان مختلف پارٹیوں کو دو کروڑ ستر لاکھ بارہ ہزار ایک سو بائیس ووٹ ملے۔ اگر آزاد ارکان کے ساٹھ لاکھ ستاسی ہزار چار سو دس ووٹ بھی شامل کر لیے جائیں تو یہ تعداد تین کروڑ تیس لاکھ ننانوے ہزار پانچ سو بتیس بنتی ہے۔
الیکشن کمیشن پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق ان میں نون لیگ کے ایک کروڑ ا نتیس لاکھ چونتیس ہزار پانچ سو نواسی اور پیپلز پارٹی کے انہتر لاکھ چوبیس ہزار تین سو چھپن ووٹ شامل ہیں۔ یعنی جنہیں عمران خان مسلسل ڈاکو چور قرار دے رہے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کو اپنے دو کروڑ کے قریب ( ایک کروڑ اٹھانوے لاکھ اٹھاون ہزار نوسو پینتالیس) ووٹرز کا اعتماد حاصل ہے۔ یوں یہ تعداد تحریک انصاف کے ووٹرز سے تقریباً تیس لاکھ زیادہ ہے۔ اور اگر دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ووٹرز کو بھی شامل کر لیا جائے تو فرق بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ اس وقت کی لاڈلی پی ٹی آئی کے مقابلے میں نون لیگ نے انتہائی جبر کے ماحول کے باوجود سوا کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اسی طرح دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے پچیس لاکھ تہتر ہزار، تحریک لبیک پاکستان نے بائیسں لاکھ چونتیس ہزار تین سو سولہ اور عوامی نیشنل پارٹی نے آٹھ لاکھ پندرہ ہزار نوسو اٹھانوے ووٹ حاصل کئے تھے۔
اس وقت اتحادی حکومت میں شامل اور پی ٹی آئی سے لاتعلق، دونوں طرح کی پارٹیوں کے مجموعی ووٹ پونے تین کروڑ سے زائد بنتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے باغی ارکان اور آزاد ارکان کے ساٹھ لاکھ ووٹوں کو بھی ملا لیا جائے تو مجموعی تعداد ساڑھے تین کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس کے ووٹوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے کچھ زائد رہ گئی ہے۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد ساڑھے دس کروڑ کے قریب تھی۔ جبکہ ووٹ ڈالنے کی شرح اکیاون اعشاریہ سات فیصد تھی۔ یعنی رجسٹرڈ ووٹرز کی نصف سے کچھ زائد تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا اور تقریباً سوا پانچ کروڑ افراد نے ووٹ دیئے تھے۔ جس میں سے اس وقت ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ووٹ حکومتی اتحادی یا ان پارٹیوں کے ہیں۔ جن کا پی ٹی آئی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ تعداد ستر فیصد بنتی ہے۔ یعنی دو ہزار اٹھارہ میں مجموعی طور پر کاسٹ کیے جانے والے ووٹوں میں سے اب صرف تیس فیصد پی ٹی آئی کے پاس ہیں۔ جبکہ عام انتخابات کے موقع پر یہ تعداد اکتیس اعشاریہ بیاسی فیصد تھی۔ تاہم باغیوں اور بعض آزاد ارکان کی علیحدگی کے بعد یہ تعداد متاثر ہو چکی ہے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں بھلا کوئی سابق کرکٹ کپتان سے پوچھے کہ عوام کی اکثریت کس کے ساتھ کھڑی ہے؟ لیکن وہ ان ناقابل تردید اعداد و شمار کو نظر انداز کرکے انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ مسلسل یہ ورد کر رہے ہیں ’’پوری قوم میرے ساتھ کھڑی ہے‘‘۔ ان کے پارٹی رہنما اور پیروکار بھی کورس میں یہی گانا گا رہے ہیں۔
اسی طرح اگر چاروں صوبوں میں مختلف پارٹیوں کے ووٹ بینک کا جائزہ لیا جائے تو دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخواہ سے اگرچہ پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ اکیس لاکھ تنتیس ہزار ایک سو بارہ ووٹ لیے تھے۔ تاہم اگر صرف متحدہ مجلس عمل کے گیارہ لاکھ اٹھائیس ہزار چھبیس، آزاد ارکان کے نو لاکھ بتیس ہزار نو سو چار، عوامی نیشنل پارٹی کے آٹھ لاکھ بارہ ہزار سات سو دو، نون لیگ کے چھ لاکھ پچپن ہزار بائیس اور پیپلزپارٹی کے چھ لاکھ اڑتالیس ہزار سولہ ووٹ ملا لیے جائیں تو مجموعی تعداد اکتالیس لاکھ تنتیس ہزار تین سو پچاس بنتی ہے۔ جو پی ٹی آئی کے ووٹوں سے تقریباً دگنی ہے۔ صوبے کی دیگر چھوٹی پارٹیوں کی جانب سے حاصل کردہ ووٹ الگ ہیں۔ اس لحاظ سے پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں سب سے زیادہ ووٹ تو حاصل کر رکھے ہیں۔ تاہم مخالف ووٹ بینک دگنے سے بھی زیادہ ہے۔ صوبہ پنجاب پر نظر ڈالی جائے تو یہاں سے دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے ایک کروڑ گیارہ لاکھ چھیاسٹھ ہزار ایک سو اکتیس ووٹ لیے تھے۔ اس کے مقابلے میں نون لیگ کو ایک کروڑ پانچ لاکھ انتیس ہزار سات سو تئیس ووٹ ملے تھے۔ یعنی نون لیگ نے تحریک انصاف سے چھ لاکھ چھتیس ہزار کم ووٹ حاصل کیے تھے۔ تاہم اگر نون لیگ کے ساتھ صرف پیپلز پارٹی کے سترہ لاکھ نواسی ہزار سات سو اسی ووٹ شامل کر لیے جائیں تو مجموعی تعداد پی ٹی آئی کے ووٹوں سے زیادہ یعنی ایک کروڑ تئیس لاکھ انیس ہزار پانچ سو تین بنتی ہے۔ اٹھارہ لاکھ اٹھاسی ہزار دو سو چالیس ووٹ لے کر صوبہ پنجاب میں تیسرے نمبر پر آنے والی تحریک لبیک پاکستان اور دیگر پارٹیوں کے ووٹ الگ ہیں۔ دوسری جانب صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ اڑتیس لاکھ چون ہزار ایک سو اٹھانوے ووٹ پیپلزپارٹی نے لیے تھے۔ جبکہ چودہ لاکھ پچاس ہزار چار سو تین ووٹ لے کر تحریک انصاف تیسرے نمبر پر تھی۔ دوسری جانب دو ہزار اٹھارہ کے جنرل الیکشن میں صوبہ بلوچستان میں چار لاکھ چھیالیس ہزار نو سو تیرہ ووٹ لے کر بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سرفہرست تھی۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف نے نصف سے بھی کم ایک لاکھ ستانوے ہزار تینتالیس ووٹ لیے تھے اور اس کی پوزیشن چھٹی تھی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چاروں صوبوں میں بھی تحریک انصاف کی مخالفت میں پڑنا والا ووٹ زیادہ ہے۔ یہ تعداد کسی صوبے میں دگنی تھی اور کہیں چار گنا تھی۔ لہٰذا عمران خان کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے کہ ساری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر کپتان کے آخری تین جلسوں کو دیکھا جائے تو ان کے یہ عوامی اجتماعات بھی اب دم توڑ رہے ہیں۔ خاص طور پر آخری تین جلسوں میں لوگوں کی تعداد خاصی کم تھی۔ تاہم پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر فوٹو شاپ اور ویڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے ان جلسوں کو بھی ’’انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتا سمندر‘‘ دکھانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اس کے ثبوت میں سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز اور ڈرون کی فوٹیجز موجود ہیں۔
ایک اور Myth (افسانہ) یہ بھی ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو بڑی تعداد میں خاموش ووٹ بھی پڑا تھا۔ مطلب تحریک انصاف کی شکل میں ایک تیسری سیاسی قوت کے میدان پر آجانے کے سبب ایسے ووٹرز نے بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ جو اس سے پہلے کسی پارٹی کو بھی ووٹ دینے سے گریز کیا کرتے تھے۔ لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ بھی ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان نے پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کا جو ڈیٹا جاری کیا تھا۔ اس کے مطابق ووٹ ڈالنے کی شرح میں تین فیصد سے زائد کمی ہوئی تھی۔ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں ٹرن آئوٹ یعنی ووٹ ڈالنے کی شرح اکیاون اعشاریہ سات فیصد رہی تھی۔ جبکہ دو ہزار تیرہ کے جنرل الیکشن میں ٹرن آئوٹ پچپن اعشاریہ دو فیصد رہا تھا۔