اہم اداروں پر مشتمل انٹرا ٹاسک فورس کا انٹیلی جنس سیٹ اپ فعال کر دیا گیا-فائل فوٹو
 اہم اداروں پر مشتمل انٹرا ٹاسک فورس کا انٹیلی جنس سیٹ اپ فعال کر دیا گیا-فائل فوٹو

کراچی میں دہشت گردی کیلیے 5 علیحدگی پسند تنظیموں کا گٹھ جوڑ

عمران خان/ اقبال اعوان:

اقتصادی حب کراچی میں دہشت گردی کیلیے سندھ اور بلوچستان کی پانچ علیحدگی پسند تنظیموں کا گٹھ جوڑ سرگرم ہے۔ پولیس کا تھانہ جاتی انٹیلی جنس نظام غیر فعال ہونے سے دہشت گرد گروپوں کے بی کیٹگری کی ٹولیوں کی وارداتیں بھی کامیاب ہونے لگی ہیں۔ 20 دنوں میں دہشت گردی کی تین بڑی وارداتوں میں 6 افراد جاں بحق اور 33 سے زائد کے زخمی ہوئے۔ جس بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حساس اداروں پر مشتمل انٹرا ٹاسک فورس کے انٹیلی جنس سیٹ اپ کو فعال کردیا گیا ہے۔ تینوں بم دھماکوں میں بلوچستان کی 4 اور سندھ کی ایک کالعدم تنظیم کا گٹھ جوڑ سامنے آنے کے بعد اس طرح کی مزید وارداتوں کے امکان پر شہر کے تمام حساس مقامات اور پر ہجوم جگہوں کیلئے اسپیشل سرویلنس اینڈ ویجلنس ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ جبکہ تحقیقاتی اداروں نے کھارادر بم دھماکے میں ایس آر اے (سندھ ریولوشن آرمی) کے ملوث ہونے کی تحقیقات شروع کر دیں۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق اس وقت سندھ اور بلوچستان میں 15 کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں سرگرم ہیں۔ جن میں بلوچستان کی 11 اور سندھ کی 4 کالعدم تنظیمیں شامل ہیں۔ بلوچستان کی سب سے بڑی علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر اپریل 2006ء میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پانچ دیگر عسکری تنظیموں پر 8 اپریل 2010ء کو پابندی عائد کی گئی۔ جن میں بلوچستان ری پبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، لشکرِ بلوچستان، بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ اور بلوچستان مسلح دفاع تنظیم شامل تھی۔ اگست 2012ء اور مارچ 2013ء میں بلوچستان بنیاد پرست آرمی، بلوچستان واجا لبریشن، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی جیسی مسلح تنظیموں پر پاپندی عائد کی گئی۔ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں فعال طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) بھی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے الزامات کے سبب کالعدم قرار دی گئی۔ اسی طلبہ تنظیم کے دو سابق چیئرمین اللہ نذر بلوچ اور بشیر زیب بلوچ لبریشن فرنٹ اور بی ایل اے کے ایک دھڑے کی قیادت کر رہے ہیں۔ جولائی 2019ء میں بلوچستان کی چار علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی اجوئی سنگر (براس) کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ اسی تنظیم براس کے مجید بریگیڈ گروپ کی جانب سے 26 اپریل کو جامعہ کراچی کے کنفیوشس سینٹر کے گیٹ پر خود کش حملے میں 3 چینی اساتذہ سمیت 4 افراد ہلاک اور 4 زخمی ہوئے۔ مذکورہ حملہ یونیورسٹی میں ایم فل کی طالبہ اور 2 بچوں کی ماں شازی بلوچ عرف برمش سے کروایا گیا۔ جسے اس کے شوہر کی معاونت حاصل رہی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے خاتون کے شوہرکی تلاش جاری ہے۔

سندھ کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر وفاقی وزارت داخلہ نے مارچ 2013ء میں سندھی قوم پرست جماعت جئے سندھ متحدہ محاذ پر پابندی عائد کی۔ جس کے سربراہ شفیع برفت تھے۔ اس کے 7 برس بعد حکومت نے سندھو دیش لبریشن آرمی اور سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس ایل اے) جئے سندھ قومی محاذ کے آریسر گروپ پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر پابندی عائد کی۔ جبکہ کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ سندھ کے ذرائع کے مطابق سندھ کی کالعدم تنظیم سندھ ریولوشنری آرمی نے بلوچستان کی 4 علیحدگی پسند تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ ، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ ریپبکن گارڈز کے مشترکہ پلیٹ فارم ’’براس‘‘ کے اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان چاروں تنظیموں کے ماسٹر مائنڈ برہمداغ بگٹی اور حیربیار مری ہیں۔ جو اس وقت یورپ میں ہیں۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد پاکستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنانا ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں براس کے دہشت گرد فدائی گروپ مجید بریگیڈ کی جانب سے خود کش حملے کے بعد اس سلسلے کو بر قرار رکھنے کیلئے اب سندھ ریولوشنری آرمی میدان میں آگئی ہے۔ تاکہ پر ہجوم اور سافٹ ٹارگٹ کو ہدف بنا کر عالمی سطح پر خبریں بنوائی جاسکیں۔ اس گروپ کو کمانڈر بشیر زیب کی سرپرستی حاصل ہے۔ جبکہ سندھ ریولوشنری آرمی کے دہشت گردوں کو ہدف اور بارود اصغر شاہ عرف سجاد شاہ دے رہا ہے۔ اصغر شاہ عرف سجاد شاہ اس وقت بلوچ گروپ کے کمانڈر زیب سے رابطے میں ہے۔

صدر کے علاقے مرشد بازار کے پرہجوم مقام پر 12 مئی کو کئے جانے والے دھماکے میں ایک شخص ہلاک اور 13 زخمی ہوئے۔ جس کی ذمہ داری سندھ ریولوشنری آرمی نے قبول کی۔ مذکورہ دھماکہ ایک انٹی گریٹڈ ایکسپلوزو ڈیوائس ( آئی ای ڈی ) کے ذریعے کیا گیا۔ جس میں بارود اور بال بیئرنگ سائیکل میں نصب کر کے لائے گئے تھے۔ یہاں پر مرکزی ہدف حساس ادارے کی گاڑی تھی۔ جو گزشتہ کئی روز سے یہاں آرہی تھی۔ تاہم یہ ابھی واضح نہیں ہوسکا اور اس پر سندھ پولیس مزید تحقیقات کر رہی ہے۔ جبکہ سائیکل لانے والے ملزم کا خاکہ بھی جاری کردیا گیا ہے، جس کے لئے عینی شاہدین اور اطراف میں لگے کیمروں سے مدد لی گئی۔ گزشتہ روز 16 مئی کو کھارادر کے علاقے بولٹن مارکیٹ کے قریب کپڑا مارکیٹ میں بالکل صدر جیسی نوعیت کے دھماکے سے ایک خاتون ہلاک اور 16 افراد زخمی ہوئے۔ جس کی ابتدائی رپورٹ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے تیار کرلی ہے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ رات بولٹن مارکیٹ کے قریب دھماکا آئی ای ڈی بلاسٹ تھا۔ جس میں چار سے 5 کلو بارودی مواد استعمال ہوا۔ جو موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا۔ دھماکا خیز مواد کے ساتھ بال بیئرنگ بھی استعمال کیے گئے۔ دھماکے سے پولیس موبائل کے سامنے کا حصہ تباہ ہوا۔ بی ڈی ایس کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ رات بولٹن مارکیٹ دھماکے میں 1 رکشہ اور 5 موٹرسائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا۔

ذرائع کے بقول مذکورہ تنظیموں کے پرانے اور تجربہ کار دہشت گرد چونکہ انڈر گرائونڈ ہیں اور خفیہ رابطوں کے ذریعے سلیپر سیلز میں شامل نئے افراد کو منظم کر رہے ہیں۔ اس لئے اس وقت جو دہشت گردی کی وارداتیں کی جا رہی ہیں۔ یہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک میں شامل نوآموز اور بی اور سی کیٹگری کے دہشت گرد کر رہے ہیں۔ کیونکہ جس بھاری مقدار میں بارود اور بال بیرئنگ استعمال کئے گئے۔ اس سے پرہجوم مقامات پر بہت زیادہ جانی نقصان ہوسکتا تھا۔ تاہم یہ دہشت گرد آئی ای ڈی بموں میں ان کی سمت اور سرعت کے توازن سے نا آشنا ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر تھانہ سطح پر پولیس اور اسپیشل برانچ کی انٹیلی جنس ماضی کی طرح فعال ہوجائے تو ان کو روکنا ممکن ہے۔ تاہم اس وقت کئی برسوں کے امن کی وجہ سے پولیس کے یہ شعبے اپنی ذمے داری سے صرف نظر کر گئے اور دیگر قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے۔ نتیجتاً دہشے گرد تنظیموں کے سلیپر سیل فعال ہوگئے۔ اس وقت دوبارہ سے ان تنظیموں کے کارکنوں، ہمدردوں کو واچ لسٹ میں ڈال کر مسلسل نگرانی اور ان کی سرگرمیوں کی پیشگی اطلاع جمع کرنے کی ضرورت ہے۔

ادھر تحقیقاتی اداروں نے کھارادر بم دھماکے میں ایس آر اے (سندھو دیش ریولوشنری آرمی) کے ملوث ہونے کی تحقیقات شروع کر دیں۔ گزشتہ دنوں صدر میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی ایس آر اے کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ دونوں دھماکوں کے حوالے سے ایس آر اے نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم تحقیقاتی ادارے اس تنظیم پر فوکس کئے ہوئے ہیں۔ جبکہ کراچی میں ہائی الرٹ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک دشمن علیحدگی پسند تنظیموں نے الگ الگ ٹاسک پر کارروائی شروع کی ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی سی پیک کو سبوتاز کرنے کیلئے چائنیز کو ٹارگٹ کر رہی ہے۔ اس کا مجید بریگیڈ خصوصی طور پر سرگرم ہے۔ بلوچ ریپلکن آرمی (BRA) کو ٹاسک سیکورٹی اداروں کی تنصیبات، گاڑیوں اور اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنے کا ملا ہے۔ بلوچ ریپلکن آرمی کے ساتھ ساتھ بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF)، بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ جبکہ ایس آر اے کے زیرانتظام چلنے والی سندھ کی علیحدگی پسند تنظیم (جسمم، جئے سندھ متحدہ محاذ) کو ریلوے ٹریکس، بجلی کی ہائی ٹینشن لائنوں کے پول بلاسٹ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ لاڑکانہ میں بجلی کے ہائی ٹینشن لائنوں کے پول تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گرد پکڑے گئے ہیں۔ جن کا تعلق سندھو دیش لبریشن آرمی اور سندھ دیش لبریشن فرنٹ سے ہے اور یہ جسمم کے زیرانتظام وارداتیں کر رہے ہیں۔

سندھ کے اندر دو ماہ کے دوران درجن سے زائد جگہوں پر ریلوے ٹریکس پر انہوں نے دھماکے کیے ہیں اور کئی جگہوں پر موقع پر گرفتار ہو چکے ہیں۔ چوتھی جانب ایس آر اے کا حصہ متحدہ لندن فرقہ وارانہ دہشت گردی کی کارروائی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی اور بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی کا ایک اور گروپ STOP (اسپیشل ٹیکنیکل اینڈ آپریشنل اسکواڈ) سیکورٹی اداروں پر حملے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ کراچی میں ایک ماہ کے دوران 3 دہشت گردی کی کارروائیاں ہو چکی ہیں۔ جبکہ ایس آر اے کے زیرانتظام کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کے حوالے سے بڑے آپریشن کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ماضی میں سی ٹی ڈی، رینجرز اور دیگر اداروں کے ہاتھوں گرفتار دہشت گردوں سے جیلوں میں تحقیقات بھی کی جائیں گی۔ جبکہ سندھ اور بلوچستان کے اندر سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں گرفتار سندھ اور بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کے حوالے سے اہم معلومات شیئر کی جائے گی۔

کراچی میں ایس آر اے سے وابستہ کالعدم تنظیموں کے زیر اثر 20 علاقوں کے اندر ٹارگیٹڈ آپریشن کی تیاری کی جارہی ہے۔ جبکہ لیاری میں مدھو گوٹھ، گلشن اقبال، شانتی نگر، اورنگی بلوچ پاڑہ، مواچھ گوٹھ، ماڑی پور کالونی، شرافی گوٹھ، پیپری، گلشن حدید، ملیر غازی ٹائون، میمن گوٹھ ملیر، گلشن بلال، کورنگی صنعتی ایریا، چکرا گوٹھ، ابراہیم حیدری، علی بروہی گوٹھ، جمعہ گوٹھ، الیاس گوٹھ، کورنگی، ریڑھی گوٹھ کے علاقے بختاور گوٹھ، ملیر کھوکھراپار، منگھو پیر کے مختلف گوٹھوں میں سیکورٹی اداروں نے مفرور دہشت گردوں کی چھان بین شروع کر دی ہے۔ ماضی میں سندھ اور بلوچستان کی علیحدگی پسند کالعدم تنظیموں کے کئی دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں اور بعض مفرور تھے۔ شہر میں ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ریلوے تنصیبات، ریڈ زونز، غیر ملکی افراد کی رہائش گاہوں، قونصل خانوں، بڑے ہوٹلوں، کوچ بس اڈوں، سیکورٹی اور پولیس کے سینٹرز، گاڑیوں اور اہلکاروں کی حفاظت کے لیے مربوط حکمت عملی تیار کی جارہی ہے۔ جبکہ جامعہ کراچی، صدر اور کھارادر بم دھماکوں کی تحقیقات والے اداروں نے چھان بین تیز کر دی ہے۔

حالیہ بم دھماکوں کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے شہر کے متعدد مقامات کو حساس ترین قرار دیا گیا ہے۔ جہاں سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ جبکہ پولیس چیف کی جانب سے پولیس اہلکاروں کو بلٹ پروف جیکٹ کے بغیر ڈیوٹی سر انجام دینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر کے جن مقامات کو حساس ترین قرار دے دیا گیا ہے۔ وہاں سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ان میں ائیر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، صدر کی موبائل مارکیٹ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہیڈ کوارٹرز، سی ٹی ڈی کے دفاتر، حساس اداروں کے دفاتر اور مختلف بینکوں کے ہیڈ کوارٹرز سمیت کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت شامل ہے۔ ان تمام جگہوں پر خصوصی سیکیورٹی سندھ حکومت اور وفاق کی جانب سے فراہم کی گئی ہے۔ جبکہ شہریوں کو بھی اس معاملے میں چوکنا رہنے کی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ کراچی سے چھینی گئی موٹر سائیکلوں اور کاروں کا بھی سراغ لگانے اور ان وارداتوں میں ملوث کار اور موٹر سائیکل لفٹرز کو گرفتار کرنے کی خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

علاوہ ازیں جو ملزمان عدالتوں سے ضمانتوں پر رہا ہیں، انہیں بھی حراست میں لے کران سے تفتیش کرنے کی منصوبہ بندی کراچی پولیس کی جانب سے کی جارہی ہے۔ کھارادر میں جس موٹر سائیکل میں بارودی مواد نصب کیا گیا تھا، وہ پرویز رحمان نامی شخص کے نام پر رجسٹرڈ تھی۔ اس کی گرفتاری کیلئے جب اس کے فلیٹ جو گلاستان جوہر میں واقع ہے، پر چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے معلوم ہوا کہ پرویز رحمان کا 6 ماہ قبل انتقال ہو چکا ہے اور اس کی موٹر سائیکل اس کے نوکر صابر کو دے دی گئی تھی۔ جب پولیس کی جانب سے صابر کی گرفتاری کے لئے نزدیکی واقع ایک گوٹھ میں چھاپہ مارا گیا تو وہاں سے صابر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور اس کا موبائل فون نمبر بھی واردات کے بعد سے بند جا رہا ہے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کا اپنی حتمی رپورٹ میں کہنا ہے کہ دھماکہ کرنے کیلئے دہشت گردوں نے غیر ملکی بارود کا استعمال کیا جو کان کنی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

پیر کو کھارادر کے علاقے میں بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والی خاتون چار بچوں کی ماں اور شو مارکیٹ کے علاقے کی رہائشی تھیں۔ وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے گھر میں دوپٹے تیار کرکے اسے کھارادر اقبال کپڑا مارکیٹ میں فروخت کرتی تھیں۔ بم دھماکے کے وقت بھی وہ دوپٹے فروخت کرکے اپنے گھر جا رہی تھیں۔ اس دھماکہ میں تین پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جس میں ایک 8 سال کا بچہ شامل ہے جو جاں بحق خاتون کا بیٹا ہے۔