امریکی محکمہ خوراک اور اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ہزاروں اسکولوں میں زیر تعلیم ایک کروڑ سے زائد طلبا و طالبات ’’مفت لنچ‘‘ کی سہولت سے محروم ہوچکے ہیں۔ 30 جون 2022ء سے ہزاروں امریکی اسکولز میں طلبا کیلئے مفت لنچ کی فراہمی کا پروگرام ختم کیا جا چکا ہے، جس کے بعد یکم جولائی جمعہ سے لاکھوں امریکی بچے بھوکے پیٹ تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اگرچہ کہ کچھ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی اسکولز میں مفت لنچ پروگرام کیلئے بائیڈن انتظامہ نے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لی، جس کی وجہ سے کانگریس نے اس ’’مفت ظہرانہ پروگرام‘‘ کیلئے فنڈز نہیں جاری کئے ہیں۔ اب ہزاروں امریکی اسکولوں کے لاکھوں بچوں کو بھوک کا سامنا ہے، لیکن نیوز ویک کا دعویٰ ہے کہ اسکول فری کھانے کیلiے بائیڈن انتظامیہ نے تین ماہ قبل مارچ 2022ء میں ڈیڑھ کھرب ڈالرز کی منظوری کیلیے کانگریس سے رجوع کیا تھا، تاکہ اس فری لنچ پروگرام کو جاری رکھا جائے۔ لیکن کانگریس نے اس رقم کو بہت زیادہ قرار دیکر اس کی منظوری دینے سے انکارکردیا۔
نیوز پورٹل این بی سی کے مطابق امریکی اسکولوں میں بچوں کیلئے خصوصی پروگرام سابق صدر ٹرمپ نے شروع کیا تھا، تاکہ بچوں کی تعلیم کا حرج نہ ہو، کیونکہ کورونا دور میں لاکھوں بچے اسکول سے دور ہوچکے تھے۔ امریکی میڈیا سے گفتگو میں کئی اسکول منتظمین نے کہا ہے کہ یکم جولائی 2022ء سے اسکولز کی کینٹین ویران اور بچوں کی ٹفن بکس خالی ہیں۔
عالمی جریدے پولٹیکو نے چنیدہ امریکی افسران سے گفتگو میں جب اسکولز میں مفت ظہرانہ کی دوبارہ فراہمی پر گفتگو کی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا پروگرا م ختم ہوچکا ہے، لیکن بائیڈن انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ کی معاونت کیساتھ کم و بیش ایک ارب امریکی ڈالر کی رقم کو متعلقہ اسکولز کو فراہم کیا جائے تاکہ اسکول منتظمین اس رقم سے خود ہی اچھا کھانا یا پھل وغیرہ خرید کر بچوں کو محدود پیمانہ پر فراہم کرسکیں، تاکہ اسکولوں میں ’’مفت لنچ پروگرام‘‘ کے حوالہ سے منفی تاثرات اور بچوں پر اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ بہرحال متعلقہ امریکی افسران کا یہ ماننا تھا کہ نئے امدادی پروگرام کی جامعیت سابقہ مفت اسکول لنچ پروگرام کی نسبت کم ہوگی۔
یاد رہے کہ امریکہ جیسی سپرپاور کے اپنے اندرونی حالات دگر گوں ہیں۔ مہنگائی، ایندھن یا پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور اناج و خوراک کی کمیابی نے عوام کی حالت پتلی کردی ہے، جس کی وجہ سے حکومت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ ہزارہا اسکولوں میں مفت لنچ پروگرام ختم کیا جاچکا ہے، حالانکہ اس پروگرام کو امریکی حکومتی ارکان ’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ قرار دیتے تھے کیونکہ مفت کھانے کی فراہمی سے لاکھوں بچوں کو واپس اسکولوں میں لایا جاچکا تھا، یہ وہ طلبا تھے جو غربت اور مہنگائی اور کورونا کی وجہ سے اسکول کی تعلیم ترک کر چکے تھے۔
ادھر امریکہ میں متحرک ’’انسداد بھوک‘‘ کے حامی رضاکاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ امریکی اسکولوں میں طلبا و طالبات کو مفت کھانے کی فراہمی کے کانگریس کے ’’چائلڈ نیوٹریشن ویورز پروگرام‘‘ ختم ہونے سے ایک کروڑ سے زیادہ بچوں کیلیے تعلیمی و صحت کی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ امریکی نیوز پورٹل این بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2020ء میں ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے شروع کئے جانے والے ’’فیڈرل فری اسکول میل پروگرام‘‘ کے ذریعے مختلف ریاستوں کے ہزارہا اسکولوں میں زیر تعلیم تمام بچوں کو مفت کھانا اور دیگر غذائی امداد دی جاتی تھی۔ امریکی ماہرین کے مطابق فری کھانا پروگرام کی بندش نے ایک نیا بحران کھڑا کردیا ہے، کیونکہ ان بچوں کے والدین و سرپرستوں کو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے سپر مارکیٹوں، گیس اسٹیشنوں، گروسری اسٹورز اور دیگر مقامات پر مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا ہے۔
’’اسکول نیوٹریشن پروگرام ‘‘سے منسلک تجارتی تنظیم ’’اسکول نیوٹریشن ایسوسی ایشن‘‘ کو مفت کھانے کی بندش کے بعد لاکھوں زیر تعلیم امریکی بچوں کے بھوکے رہنے کی فکر لاحق ہے۔ مارچ 2020ء میں جب فری لنچ پروگرام کا اجرا کیا گیا تھا تو اسکول منتظمین، اساتذہ، اراکین پارلیمنٹ، انسداد بھوک پروگرام کی تنظیموں اور رضاکاروں سمیت خود بچو ں کے والدین نے اس اقدام کا بھرپور خیر مقدم کیا تھا۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں لاکھوں بچوں کیلیے مفت لنچ پروگرام دنیا کے بڑے فلاحی پروگرامز میں سے ایک تھا۔ یاد رہے کہ امریکی وفاقی قوانین کے تحت چار افراد پر مشتمل ایک ایسا خاندان جس کی سالانہ آمدنی 34 ہزار ڈالر سے کم ہو، مفت کھانا لینے کی حقدار ہوتی ہے۔ جبکہ 48 ہزار ڈالر سالانہ آمدنی والے خاندان کو کم قیمت کھانے کا حقدار سمجھا جاتا ہے، لیکن فری اسکول کھانا پروگرام میں تمام بچوں کو ان کے مالی اسٹیٹس کے بغیر اس بات کا حق دیا گیا تھا کہ اسکول پہنچنے والے ان بچوں کو مفت کھانا فراہم کیا جائے، جس میں اب تک پھل، دلیہ، کیک، جوس، دودھ، اسنیک، انڈے وغیرہ فراہم کیے جاتے تھے، لیکن اب یہ سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔