بھارتی ریاست گجرات میں آوارہ کتوں کی عیش

امت رپورٹ:

بھارتی ریاست گجرات میں ایک ایسا ضلع بھی ہے جہاں آوارہ کتے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کیلیے نوابی دور سے قائم ’’کتاریہ ٹرسٹ‘‘ کے عہدیدار اور خدمت گار اصلی گھی چپڑی روٹیاں، موتی چور کے لڈو اور دودھ بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے علاج معالجے کیلیے ویٹرنری ڈاکٹروں کا بھی انتظام ہے۔

مقامی آوارہ کتوں کی دیکھ بھال اور پرورش کیلیے ایک صدی قبل ریاستی نواب نے بیس بیگھا زرعی زمین مختص کردی تھی، جس کی سالانہ فصل کی آمدن سے کتوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ آج یہ بیس بیگھا زمین کروڑوں روپے مالیت کی ہوچکی ہے اور اس کا رقبہ بھی عطیات دہندگان کی وجہ سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ پالن پورکے اس گائوں کشکل اوراطراف موجود کسانوں اور مزدوربھی ان کتوں کی قسمت پر رشک کرتے ہیں۔ کیونکہ گائوں کے انسانوں کو اپنی روزی روٹی کیلیے دن بھر محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اسی گائوں کے آوارہ کتے، نواب بنے پھر تے ہیں۔ آوارہ کتوں کیلیے روزانہ کھانا بنانے کیلئے چودھری کمیونٹی کے دس رضاکار مرد و خواتین کام کرتے ہیں۔ وہ آٹا، شیرہ اور میوہ گوندھتے ہیں اور اس سے بڑے سائز کی روٹی جس کو مقامی اصطلاح میں ’’روٹلا ‘‘ کہتے ہیں، بناتے ہیں۔ پھر ان کو ملیدہ اسٹائل میں توڑ تے ہیں اور کتوں کیلیے نرم کرتے ہیں۔ کتوں کیلئے موتی چور کے لڈو بھی بنائے جاتے ہیں۔ کھانا کھاکر سیر ہوجانیوالے یہ آوارہ کتے دوبارہ گائوں کے مختلف مقاما ت پر یا اپنے لئے مختص بلڈنگ میں چلے جاتے ہیں اور آرام کرتے ہیں۔ یہ بلڈنگ آوارہ کتو ں کیلیے گائوں میں تیس سال قبل بنائی گئی تھی تاکہ بارش اور مون سون میں کتے محفوظ رہیں۔ اس بلڈنگ میں بیمار ہوجانے والے کتوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ پالن پوری تعلقہ کے یہ کتے آپس میں کبھی بھی لڑائی نہیں کرتے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ان کیلئے بنایا جانیوالا کھانا وافر ہے اور ان کو کم نہیں پڑے گا۔

ہمت چوہدری نامی ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ کئی دہائیوں سے ہم اس ز مین کو سالانہ نیلامی کے تحت کسانوں کو بٹائی پر فراہم کرتے ہیں اور ایڈوانس سمیت فصل کی کٹائی پر تمام رقم وصول کر ٹرسٹ میں جمع کرلیتے ہیں۔ اسی رقم سے کتوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے۔ اس تمام کارروائی کا باقاعدہ ریکارڈ بناکر رکھا جاتا ہے اور ایک ایک پائی کا حساب بھی لکھا جاتا ہے۔ گجرات کے اس گائوں میں موجود ایک ٹرسٹ ممبر پرکاش چودھری‘ نے بتایا کہ ان کا کشکل گائوں چودھری کہلائی جانیوالی گجراتی ہندوکمیونٹی کا رہائشی علاقہ ہے، جو کتوں کی عزت کرتے ہیں۔ ان کو ایک صدی قبل ہماری ریاست کے نواب نے حکم دیا تھا کہ ان کے شکاری کتوں کی طرح گائوں کے آوارہ کتوں کا بھی احترا م کیا جائے اور ان کو کھانے پینے کی تنگی نہیں ہونی چاہیئے۔ نوابی احکامات پر ان کتوں کیلیے اس وقت جنکی تعداد بیس بتائی جاتی ہے، بلحاظ تعداد بیس بیگھا زرخیز زرعی زمین پر مبنی جاگیر کا عہد نامہ لکھا گیا تھا۔ جس کے بعد اس زمین میں کئی گنا اضافہ اس لئے بھی ہوچکا ہے کہ کشکل کے آوارہ کتوں کیلیے مقامی کمیونٹی نے بھی نواب کی تقلید میں کئی مواقع پر زمینیں رجسٹرڈ کروائی ہیں۔ اگرچہ زمین کسی خاص کتے یا گروہ کے نام پر سرکار ی کاغذات میں درج نہیں ہے لیکن ایک ٹرسٹ کے تحت اب ان زمینوں کو رجسٹرڈ کردیا گیاہے اور اس ٹرسٹ کو جو ’’کتاریہ ٹرسٹ ‘‘کہلاتاہے، کے رضاکار چلاتے ہیں۔

گائوں کے یہ آوارہ کتے رات کے اوقات میںغول کی شکل میں گائوں بھر کی گلیوں میں اور اطراف کے علاقہ میں گشت کرتے ہیں اور چوکیداری کا کام کرتے ہیں۔ کشکل گائوں ایک صدی سے یوں بھی مشہورہے کہ یہاں موجود نواب صاحب نے کتوں کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کیلئے بیس بیگھا زمین مختص کردی تھی اور اس زرعی زمین سے ہونیوالی آمدن سے اپنی ریاست کے ان آوارہ کتوں کیلئے راتب وغیرہ کا اہتمام کرنے کی ہدایات دی تھیں۔ نوابی احکامات پر ترت عمل کیا گیا اور تمام آوارہ کتوں کیلئے نوابی عطیہ سے دی جانے والی زرعی زمین مختص کردی گئی۔ کئی دہائیوں سے اس زمین کا باقاعدہ نیلام کیا جاتا ہے اور زمین کسانوں کو بٹائی یا زراعت کیلئے دیدی جاتی ہے اور سالانہ آمدن ٹرسٹ کو فراہم کی جاتی ہے اور اسی آمدن سے کتوں کیلئے کھانے وغیرہ کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ تا حا ل اس رسم کے تحت آوارہ کتوں کے مزے جاری ہیں اوردو وقت اچھا کھانا کھانے والے کتے چاق و چوبند اور صحت مند ہیں۔ ایک دہائی قبل اس علاقہ میں آوارہ کتوں کی تعداد بیس تھی جس میں ہر سال اضافہ بھی ہوتا تھا اور کمی بھی۔ دلچسپ لیکن حیران کن بات یہ بھی ہے کہ گجراتی نواب کی جانب سے ’’کتا نوازی ‘‘کی اس تاریخی رسم کے تحت جب اس جاگیر میں کوئی آوارہ کتا مر جاتا ہے تو اس کو باقاعدہ ہار پھول پہنا کر دفنایا جاتا ہے۔

اس ضمن میں’’ کتاریہ ٹرسٹ‘‘ کے پرکاش چودھر ی کہتے ہیں کہ ہم اس لئے بھی کتوں کی عزت کرتے ہیں اوران کا مان سمان رکھتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ’’ہندو عقیدہ ‘‘کے تحت شاید ان کو اگلے جنم میں کتا نہ بنایا جائے۔ اور اگر کتا بنایا جائے تو بناس کانٹھا کے پالن پور تعلقہ کے گائوں کشکل کا کتا بنایا جائے جو انسانوں سے لاکھ درجہ اچھی زندگی بسر کررہے ہیں۔ کشکل گائوں کے کتوں کے حوالہ سے یہ بات بھی اہم ہے کہ جب ان کتوں کیلئے ٹرسٹ کی خواتین رضاکار میٹھی گھی والی روٹیاں یعنی’’ روٹلا‘‘ بناتی ہیں تو یہ کتے مزے سے اطراف میں بیٹھے کھانے کے منتظر ہوتے ہیں۔ گائوں میں اونچے مقام پر کتوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ مقامی چودھری کمیونٹی کا کہنا ہے کہ کتوں نے نوابی دور سے ہی یہاں موجود کمیونٹی کی محبت کو دل میں بٹھا لیا ہے اور انہوں نے کبھی بھی اس گائوں میں انسانوں یا بچوں یا خواتین پر کوئی حملہ نہیں کیا ہے۔ یہ غول درغول گھومنے والے کتے دیکھنے میں خطرناک اور عام کتے لگتے ہیں۔ لیکن ان کی جانب سے کبھی بھی اس کمیونٹی میں کسی پر حملہ کرتے نہیں دیکھا گیا۔ کمیونٹی کے ممبران کا کہنا ہے کہ چھٹیاں اور دیگر تیوہاروں پر بھی کتوں کی خدمت گیری کیلئے ہم ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بازی لیجانے کی کوشش کرتے ہیں ۔