’’دولت اسلام کے بغیر زندگی بے معنی ہوتی‘‘

امت رپورٹ:

بربرا کی عمر 24 سال ہے۔ پیرس جیسے فیشن کے عالمی مرکز میں پلنے بڑھنے کے باوجود اس کا دل یقین و ایمان کے نور سے منور ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل اسلام قبول کیا۔ پھر اس راہ میں آنے والی ہر مشکل کا خندہ پیشانی سے ایسا مقابلہ کیا کہ پیدائشی مسلمانوں کیلیے بھی مثال اور مینارہ نور بن گئی۔

دجالی میڈیا ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا۔ الزامات و اتہامات کی بوچھاڑ ہوگئی۔ کردار کشی کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ مگر رب کی اس عاشقِ صادق کے پایہ استقلال میں کوئی جنبش نہیں آئی۔ بربرا ایک قدامت پرست کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئی۔

شیخ فہد الکندی کو ایک انٹرویو میں اس کا کہنا ہے کہ میرا رب سے تعلق بہت گہرا تھا۔ لیکن اس کے قرب کی کوئی راہ نہیں پاتی تھی۔ اسی جستجو میں رہتی تھی کہ مجھے رب کا تقرب اور معرفت کیسے حاصل ہو۔ کالج کی تعلیم مکمل کرکے جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو وہاں ایک مراکشی طالبہ سے ملاقات ہوئی۔ پھر ہم دونوں دوست بن گئے۔ وہ برائے نام مسلمان تھی۔ مغربی کلچر اور جدید رنگ میں رنگی ہوئی۔ اسے اسلام کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ اسلام سے متعلق میں وہی کچھ جانتی تھی، جو مغربی میڈیا میں بتایا جاتا ہے۔ یعنی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مذہب۔ اس کے پیروکار انسانی خون کے پیاسے۔ اس کی شریعت تعصب و تشدد کی داعی۔ مراکشی دوست نے مجھے چھٹیوں میں اپنے وطن جانے کی دعوت دی۔

میں نے ڈرتے ڈرتے اس کے مراکش جانے کا پروگرام بنایا۔ لیکن وہاں پہنچ کر میں حیران رہ گئی۔ مراکشی لوگوں نے میرے ساتھ جو برتائو کیا اور جس حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا، اس نے اسلام کے بارے میں میرے سارے خیالات پلٹ دیے۔ ہر کوئی بچھا جا رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک گھر میں دعوت۔ ایسی محبت جو مغرب میں کوئی اپنی سگی اولاد کو بھی نہیں دیتا۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ مجھے اپنی پلکوں میں بٹھالیں۔ میڈیا تو ہر وقت مسلمان کا چہرہ بگاڑکر پیش کرتا ہے، لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ میں کسی اور سیارے میں اتری ہوں۔ میں بہت زیادہ متاثر ہوگئی۔ واپس جا کر میں نے اسلام پر ریسرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بالکل خالی الذہن ہوکر۔

ابتدا قرآن کریم سے کی۔ فرنچ ترجمہ و تفسیرکے ساتھ قرآن کا مطالعہ چھ ماہ جاری رہا۔ ابھی حدیث اور سیرت رسولؐ کی باری آئی نہیں تھی کہ میری روحانی حالت بدلنے لگی۔ قرآن میں میرے ہر اشکال کا جواب ملنے لگا۔ ساتھ میں قلبی سکون و اطمینان کا احساس الگ۔ ایک رات حسب معمول میں قرآن کا مطالعہ کر رہی تھی کہ دل میں خیال آیا کہ بربرا…! کیا اب وہ وقت نہیں آیا کہ تم کلمہ شہادت پڑھ لو۔ یہ سوچ کر ہی مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ یہ کوئی آسان فیصلہ ہرگز نہیں تھا کہ انسان اپنے اس آبائی مذہب کو چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلے، جس کی تعلیم ماں کی گود میں اسے دی گئی ہو اور اپنا جدی پشتی عقیدے کو خیرباد کہنا یقینا بہت بڑا فیصلہ ہوتا ہے۔ پھر یہ کوئی صرف زبانی کلامی دعویٰ بھی نہیں، بلکہ خود کو اس کے رنگ میں رنگنا اور اس قالب میں ڈھالنا بھی پڑے گا۔

’’کیا فرانس کے اس ماحول میں میرے لئے یہ ممکن ہے؟ والدین اس فیصلے کو قبول کریں گے یا مجھے گھر سے نکال دیا جائے گا؟ اگر نکال دیا تو میں کہاں جائوں گی؟…‘‘ ان خیالات میں دیر تک کھوئی رہی۔ پھر میں نے فیصلہ کرلیا، جو ہو سو ہو، دیکھا جائے گا، جب حق واضح ہو چکا ہے تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہہ کر میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اگلے دن نماز کے وقت میں قریبی مسجد پہنچ گئی۔ میں نے حجاب وغیرہ بھی نہیں کیا تھا، بلکہ جینز پہن رکھی تھی۔ نماز کے بعد میں ڈائریکٹ امام صاحب کے پاس محراب پہنچ گئی۔ امام صاحب کو فرنچ نہیں آتی تھی۔ ایک نمازی نے مجھ سے پوچھ کر انہیں بتایا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں۔ وہ بڑے اچھے انسان تھے۔ میری بات بڑی توجہ سنی۔ لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک دوسرے بھائی آگئے۔ انہوں نے کہا کہ آج بدھ کا دن ہے، آپ جمعہ تک مزید غور و فکر کرکے آجائیں۔ میں نے مزید کیا سوچنا تھا، بہرحال جمعہ کو میں مسجد پہنچ گئی۔ نماز کے بعد سب کے سامنے میں نے کلمہ پڑھ لیا۔‘‘

اسلام قبول کرنے کے بعد بربرا کو جو کیفیت محسوس ہوئی، جس خوشی و طمانیت اور روحانی مسرت کا احساس ہوا، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ کہتی ہے کہ اگر مجھے اسلام کی دولت نہ ملتی تو میرا کیا بنتا، رب کی معرفت اور تقرب کے بغیر زندگی تو بے معنی ہوتی۔ اب اگر میرے پاس دنیا کی کوئی بھی مادی شے نہ ہو تو میرے لئے یہی کافی ہے۔ اس خوشی کو بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں۔ اسلام نے میری شخصیت کو مضبوط کر دیا ہے، میں دوسروں کی مدد کرتی ہوں، لیکن اس کے باوجود اس خیال سے روتی رہتی ہوں کہ اگر میں رب کو نہ پاتی تو میرا کیا بنتا (یہ کہہ کر بربرا خود بھی روتی ہے اور شیخ فہد پر بھی رقت طاری ہو جاتی ہے)۔

بربرا کے لیے سب سے مشکل لمحہ اپنے والدین کو قبول اسلام کے بارے میں بتانا تھا۔ اس نے بلاجھجھک پہلے والدہ کو فون کرکے بتایا اور نتائج کی کوئی پروا نہیں کی۔ حسب توقع والدین کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر فرانس کے ماحول میں حجاب پہننا بھی ایک بڑا امتحان تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلے ہفتہ تو بہت مشکل سے گزرا۔ ہر جاننے والا اس پر ٹوکٹا، آتے جاتے لوگ بھی مذاق اڑاتے۔ مگر میں نے صبر کا دامن تھامے رکھا۔ بہرحال رفتہ رفتہ اس کی عادت سی ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے اسلامی احکام کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ بنیادی تعلیمات کے بعد میں نے دین کا مکمل علم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ دوسروں کو بھی دعوت دے سکوں۔ میں نے مختلف اسلامک سینٹرز اور ائمہ کرام سے کورسز شروع کئے۔ اپنا مطالعہ بھی جاری رکھا۔ اس کے بعد میں نے خواتین میں دعوت کا کام شروع کیا کہ اب رب کا شکر ہے کہ میں نومسلم خواتین کی نظریاتی تربیت کے ساتھ انہیں ریاض الصالحین اور متن الاربعین جیسی کتب حدیث پڑھاتی ہوں۔