ضیا چترالی:
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
فرانسیسی ایمانویل میکرون کا مکر الٹا پڑ گیا۔ فرانس میں مسلمانوں کے خلاف سخت ترین قوانین نافذ کئے جانے کے بعد فرنچ باشندے جوق در جوق اسلام لانے لگے۔ ایک برس میں تعداد 4000 ہوگئی۔ جن میں سے بیشتر نوجوان ہیں۔ فرانسیسی چینل 2 کی تازہ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد سرکاری اعداد و شمارکے ہیں۔ جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ سچ کہا ہے صفوی لکھنوی مرحوم نے:
اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں آیا
تاریخ سے یہ مضموں ہم تم کو دکھا دیں گے
اس دین کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
اس رپورٹ میں نوجوانوں کے ایمان افروز انٹرویوز کے اقتباسات بھی شامل ہیں۔ مثلاً ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ میں نے پیرس کی سب سے اونچی عمارت کا انتخاب کیا تھا خودکشی کیلیے۔ مگر اسلام نے مجھے بچا لیا۔ اس نوجوان کا نام اسٹیو ہے۔ اس کا قصہ خود اسی کی زبانی سن لیجئے:
’’اسٹیو میرا نام ہے۔ میں فرانس کا اصل باشندہ ہوں۔ پیرس میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ مسیحیت سے خاندانی تعلق تھا۔ لیکن زندگی بلاکیف تھی۔ بلکہ عرصۂ حیات تنگ تھا۔ نفسیاتی مسائل نے گھیر رکھا تھا۔ ڈپریشن اور فرسٹریشن کے ہاتھوں بالکل مفلوج ہو چکا تھا۔ شراب و شباب، رقص و سرود، طائوس و رباب سے دل بہلانے کی کوشش کی، مگر بے سود۔ جوا اور دیگر مشاغل سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ زندگی کا نہ کوئی ہدف تھا، نہ مقصد۔ یہاں تک کہ پیرس میں ایک ایسی عمارت ڈھونڈنے لگا، جس سے نیچے کود کر میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلوں۔
ایک دن یہی سوچتے ہوئے سکون کی تلاش میں ایک مسجد کے اندر داخل ہوا۔ یہ اذان کا وقت تھا۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور اذان دینا شروع کی۔ اذان کا پہلا لفظ سن کر ہی مجھے عجیب احساس ہوا، اس سے پہلے زندگی میں کبھی ایسا محسوس نہیں کیا تھا۔ گویا اذان کے کلمات کانوں کے راستے ڈائریکٹ میرے دل پر دستک دے رہے تھے اور میری روح کو جھنجھوڑ رہے تھے۔ مجھ پر کپکپی سی طاری ہوگئی اور مجھے رونا آگیا۔ میں مسجد سے نکل گیا۔ اس کے بعد دوبارہ اذان کے وقت مسجد گیا۔ لیکن اس بار کسی دوسرے شخص نے اذان دی۔ پہلا والا موجود نہیں تھا۔ میں نے اذان سنی اور پھر مجھے رونا آگیا۔ حالانکہ ان کلمات کا مفہوم و معنی مجھے معلوم نہیں تھا۔ لیکن اتنا جانتا تھا کہ یہ رب العالمین کا نام لیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسی کی طرف رجوع کئے بغیر چارہ نہیں۔ یہود، و نصاریٰ اور مسلمان سب خود کو اہل حق کہتے ہیں۔ میں نے دل سے دعا کی کہ رب العالمین! مجھے حق دکھا دے کہ وہ یہود کے پاس ہے یا نصاریٰ کے یا پھر مسلمانوں کے پاس؟
اس دعا کے بعد میں پھر مسجد گیا، تقریباً دو گھنٹے وہاں بیٹھا رہا عصر سے مغرب تک۔ وہاں سے جب گھر واپس پلٹا تو دل پھر مجھے مسجد کی طرف کھینچنے لگا۔ گھر میں سکون نہیں ملا تو پھر مسجد روانہ ہو گیا۔ پہلے تو وہاں جا کر میں خاموش بیٹھا رہتا تھا۔ اب میں نے خاموشی توڑ دی اور لوگوں سے کہا کہ مجھے امام صاحب سے ملادو۔ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ ایک مسلمان نے کہا کہ بھئی! اسلام میں داخل ہونے کے لیے امام کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ خود بھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کونسا کلمہ؟ اس نے کلمہ شہادت پڑھ لیا اور میں نے اس کے ساتھ دہرادیا۔
کلمہ پڑھنے کے بعد میں مسجد کا ہی ہو کر رہ گیا۔ قرآن کے ساتھ عربی میں بھی مہارت حاصل کرلی۔ اب میں غیر مسلموں اور نو مسلموں پر کام کرتا ہوں۔‘‘
اسٹیو کا کہنا ہے کہ حق تعالیٰ نے مجھ پر بڑا احسان کیا، مجھے اسلام کی دولت سے نوازا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں کب کا خود کشی کرچکا ہوتا۔ اب میں زندگی کے لطف سے آشنا ہوا۔ اس راستے میں کئی آزمائشیں آئیں، لیکن میں نے کسی ابتلا کی کوئی پروا نہیں کی۔ حق تعالیٰ نے مجھے اس سے نمٹنے کا حوصلہ اور قوت بھی عطا کی۔ یقین مانئے کہ اسلام سے بڑی کوئی دولت نہیں ہے۔ صحت و دولت اور اولاد سے بھی یہ بڑھ کر ہے۔ اگر بالفرض مجھ سے ساری نعمتیں چھن جائیں، صرف ایمان باقی رہے تو مجھے کوئی پروا نہیں۔ لیکن اگر سب کچھ ہوتے ہوئے خدا نخواستہ ایمان سے محروم ہوگیا تو سمجھئے کہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ میری تمام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ اسلام پر فخر کیجئے۔ کفار و مشرکین اور منافقین کے دھوکے میں مت آیے۔