عمران خان:
جعلی ادویات کی تیاری اور سپلائی میں ایک ہی گروپ ملوث ہے۔ جو اب تک کروڑوں جعلی پیناڈول ملک بھر میں سپلائی کر چکا ہے۔ یہ گروپ جان بچانے والی جعلی ادویات بھی بناکر سپلائی کر رہا ہے۔ لاہور میں جان بچانے والی جعلی ادویات بنانے والاگروپ پکڑ لیا گیا ہے۔ جس کے بعد تحقیقات کا دائرہ چاروں صوبوں میں پھیلا دیا گیا ہے۔ ادھر صرف کراچی میں ایک ہفتہ کے دوران 5 کارروائیوں میں پیناڈول کی 6 کروڑ سے زائد گولیاں ضبط کی جا چکی ہیں۔ جن کو جانچ کیلیے بھیج دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جان بچانے والی جعلی ادویات کی بھاری کھیپ کو بھی ضبط کیا گیا ہے۔ اب تک پاکستان کی سب سے بڑی مرکزی میڈیسن مارکیٹ ایم اے جناح روڈ کچھی گلی میں تین چھاپے مارے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز سائٹ ایریا کی فیکٹری اور ملیر میں بھی دو چھاپے مارے گئے۔ حیدرآباد، ملتان اور لاہور میں ادویات کی جعلی کھیپ پکڑی جا چکی ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق گزشتہ روز ڈرگ ڈپارٹمنٹ سندھ کی کارروائی میں لاہور سے کراچی آنے والی جعلی ادویات کی کھیپ پکڑی گئی۔ جعلی ادویات میں جان بچانے والے اینٹی بائیوٹک دوا کے انجکشن بھی شامل ہیں۔ یہ انجکشن شدید بیمار افراد اور ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کے علاج کیلیے دیئے جاتے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹر سندھ نے بتایا کہ اینٹی بائیوٹک دوا کے ایک انجکشن کی قیمت چار ہزار روپے ہے۔ گرفتار ملزم سکندر نے بتایا کہ جعلی ادویات کی فیکٹری اور پرنٹنگ پریس لاہور میں کام کر رہا ہے۔
ڈرگ انسپکٹرز کا کہنا تھا کہ ملزم کو قانونی کارروائی کیلئے تھانہ بریگیڈ پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز ڈریپ کی نیشنل ٹاسک فورس کی جانب سے کراچی کے علاقے سائٹ ایریا میں دوا ساز فیکٹری پر چھاپہ مار کر جعلی اور غیر قانونی طور پر تیارکردہ نیوٹرا سوٹیکل ادویات کی بھاری مقدار برآمد کی گئی۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے مطابق فیکٹری میں پیرا سیٹامول کے مشابہ دوا کی تیاری جاری تھی۔ خدشہ ہے کہ فیکٹری پیراسیٹامول کی قلت کی آڑ میں جعلی پیراسیٹامول تیار کر رہی تھی۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ایک منظم گروہ ملٹی نیشنل اور مقامی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جعلی ادویات تیار کرکے پاکستان کے مختلف شہروں میں سپلائی کر رہا ہے۔ کیونکہ اسی ہفتے لاہور میں محکمہ صحت کے حکام نے کل موری گیٹ میں ایک پرنٹنگ پریس پر چھاپہ مارا۔ جہاں زندگی بچانے والی مختلف ادویات کا پیکنگ میٹریل غیر قانونی طور پر پرنٹ کیا جا رہا تھا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) کے مطابق یہ پرنٹنگ پریس صحت کے حکام کے علم میں اس وقت آیا۔ جب ضلع حیدرآباد میں حکام کی جانب سے جعلی اور جعلی ادویات کی ایک بڑی کھیپ پکڑی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جان بچانے والی ادویات کا غیر قانونی طور پر پرنٹ شدہ پیکنگ میٹریل بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں غیر مجاز فیکٹریوں کو سپلائی کیا جا رہا تھا۔ جبکہ پرنٹنگ پریس پر چھاپے اورجان بچانے والی ادویات کے لیے غیر قانونی پیکنگ میٹریل چھاپنے کے مجرموں کی گرفتاری کے بعد، جعلی اور جعلی ادویات تیار کرنے والے مجرموں کا پتہ لگانے کے لیے ملک گیر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ڈریپ حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ جعلی ادویات کا ریکٹ پاکستان کے چاروں صوبوں میں پھیل چکا ہے۔ ادھر حیدرآباد میں جعلی ادویات کے جرم میں جن افراد کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ ملتان سے ادویات لے رہے تھے۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریاں بلوچستان کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقوں میں بھی کام کر سکتی ہیں۔ اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے وفاقی ایجنسیوں بشمول وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔
زندگی بچانے والی ادویات کی کاپیاں تیار کرنا منشیات کی تیاری اور سپلائی سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔ مثال کے طور پر میروپینم ایک جان بچانے والی اینٹی بائیوٹک ہے، جو بچوں میں سنگین انفیکشنز بشمول ٹائیفائڈ کے علاج کے لیے دی جاتی ہے۔ اگر کسی کو اصلی دوائی کی بجائے جعلی دوا مل جاتی ہے تو وہ ٹھیک ہونے کے بجائے مر جائے گا۔
ڈریپ کے ایک سینئر افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اکثر اسپتالوں سے ڈاکٹرز شکایت کر رہے ہیں کہ ڈینگی بخار میں پیناڈول جو واحد بے ضرر گولی ہے یا تو اثر نہیں کر رہی یا پھر گردوں کو متاثر کر رہی ہے، جس سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں جعلی پیناڈول مکس کر کے سپلائی کی جا رہی ہیں۔ کیونکہ اصل پیناڈول بخار میں کمی ضرور لاتی ہے اور گردے متاثر نہیں کرتی۔