نواز طاہر:
جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرہ اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں بیشتر علاقوں میں سیلابی پانی اتر گیا ہے۔ تاہم نشیبی بستیوں میں اب بھی پانی موجود ہے۔ سیلاب زدگان نے اپنے گھروں کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم گھر واپسی ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کہ بیشتر متاثرین کے گھر تباہ ہو چکے۔ واٹر کورسز بھی باقی نہیں بچے۔ جبکہ فاضل پور الخدمت کی جانب سے بسائی گئی مرکزی خیمہ بستی تاحال آباد ہے۔ ان کی گھروں کو واپسی اسی ماہ کے آخر تک ہونے کی امید ہے۔ فاضل پور میں ایک لاکھ سے زائد گھر منہدم ہوئے۔
واضح رہے کہ اتوار کی شام تک ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے بیشتر علاقوں سے سیلاب کا پانی اٹھانوے فیصد تک اتر چکا ہے۔ البتہ بعض نشیبی علاقوں، کچے کے وسیع علاقے اور شہر کے اندر خالی پلاٹوں میں ایک سے تین فٹ تک موجود ہے اور اس نے یہیں پر جذب ہونا ہے۔ کچے کے دور دراز علاقون تک امداد پہنچانے والے کارکنوں کی رسائی ایک ہفتہ پہلے کی مشکلات کی نسبت آسان ہوگئی ہے اور زندگی بحال ہونا شروع ہوگئی ہے۔ امدادی فلاحی تنظیموں نے بھی بحالی اور تعمیرِ نو کی پلاننگ شروع کر دی ہے اور اس پر کسی حد تک عملدرآمد بھی جاری ہے۔ تاہم حکومتی سطح پر اس حوالے سے کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دیتی۔ جس سے کہا جا سکے کہ بحالی اور تعمیر نو جلد ہو جائے گی۔
سیلاب متاثرہ علاقوں سے پانی نکالنے سے لے کر خوراک اور رہائش تک کے انتظامات کرنے والوں میں الخدمت فائونڈیشن، مقامی ادبی تنظیم سوجھل دھرتی واس، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) اور المصطفیٰ فائونڈیشن کی دن رات کاوشوں کو مقامی لوگ سراہتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن راجن پور کے ترجمان میاں عرفان نے ’امت‘ کو بتایا کہ مجموعی طور پر اٹھانوے فیصد پانی اتر چکا ہے۔ البتہ کوٹلہ بکھو اور سوہن سمیت راجن پور کے کچھ موضعات میں ایک سے تین فٹ تک پانی موجود ہے۔ جن موضعات میں پانی موجود ہے، وہ بھی اب تک ختم ہوچکا ہوتا۔ لیکن اصل مسئلہ انڈس شوگر ملز کو بچانا ہے۔ انتظامیہ نے یہاں سے پانی اس لئے نہیں نکالا کہ انڈس شوگر ملز والے پانی کو راستہ دینے کیلئے تیار نہیں۔
یاد رہے کہ انڈس شوگر ملز اس علاقے کے ایک بڑے سردار اور تحریکِ انصاف کے رہنمائوں سردار نصراللہ خان دریشک اور ان کے صاحبزادے حسنین بہادر دریشک کی ملکیت ہے۔ جبکہ حسنین بہادر دریشک پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت میں چودھری پرویز الٰہی کابینہ کے اہم وزیر ہیں۔ مقامی انتظامیہ یا حکومت سے کیا بات کریں۔ حکومت تو ابھی انڈس ہائی وے کو لگائے جانے والے کٹ بھی نہیں بھر سکی اور اسے بحال نہیں کرسکی۔ لوگ وہیں سے دلدل سے گزر رہے ہیں۔ متبادل کچے راستے پر زیادہ تر گاڑیاں اسی دلدل میں پھنس جاتی ہیں۔ اسی طرح کچھ علاقوں میں گڑھے پڑے ہوئے ہیں اور چھوٹے چھوٹے ٹوبے بن گئے ہیں۔ جن میں پانی موجود ہے۔ تاہم متاثرین کی اپنے اجڑے ہوئے موضعات، بستیوں اور ڈیروں کی طرف واپسی ہو رہی ہے۔ الخدمت کی خیمہ بستیاں بھی تقریباً ختم کردی گئی ہیں۔ البتہ انڈس ہائی وے پر فاضل پور میں مرکزی خیمہ بستی ابھی آباد ہے اور وہ بھی اس ماہ کے آخر تک ختم کردی جائے گی۔
میاں عرفان نے بتایا کہ صرف راجن پور ضلع میں ایک لاکھ گھر متاثر ہوئے ہیں اور ابھی مزید سروے جاری ہے۔ اسی طرح ادبی تنظیم سوجھل دھرتی واس کے رہنما شاہنواز مشوری نے بتایا کہ فاضل پور شہر میں بھی زیریں حصوں پر اور خالی پلاٹوں پر ایک سے ڈیڑھ فت تک پانی موجود ہے۔ جس کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں اور نہ ہی بلدیہ نے اس بارے میں تاحال سوچا ہے۔ جب تنظیم نے ٹریکٹروں اور نکاسی آب کے پمپوں کا انتظام کیا تو مقامی لوگوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ یہ پانی ان کے گھروں میں داخل ہوجائے گا۔ کیونکہ شہر میں سیوریج کا مناسب انتظام ہی نہیں ہے۔ اس طرح یہ پانی زمین میں جذب ہوگا اور یہیں سوکھے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے مکمل طور پر ڈھے جانے والے گھروں کی بحالی کیلئے چھتوں کی فراہمی کا پلان بنایا ہے۔ جس کے تحت کچی دیواریں تعمیر کرکے چھت فراہم کریں گے اور اب تک مخیر حضرات کے تعاون سے پنیتیس چھتیں اسپانسر ہو چکی ہیں۔ جن میں سے تیس چھتوں کی فراہمی فائنل کردی گئی ہے۔
ینگ ڈاکٹر ایسو سی ایشن راجن پور کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سعد نے بتایا کہ تونسہ کے علاقوں میں بھی پانی اتر چکا ہے۔ بس اکا دکا آبادیوں میں تھوڑا بہت پانی باقی ہے۔ لیکن یہ راستہ نہیں روک رہا۔ ان علاقوں میں بھی رسائی ممکن ہے جہاں پہلے رسائی نہیں تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ ایک اہم مسئلہ اب زمینوں کو تہہ بالا کرنے والے رودکوہیوں کے تیز پانی سے آنے والی بھل نے بھی پیدا کردی ہے۔ تین سے پانچ فٹ کی بھل کی تہیں جم گئی ہیں۔ یہ بھل کھالوں (واٹر کورسز) میں بھی جمی ہے۔ جبکہ زیادہ تر واٹر کورسز تباہ ہوچکے ہیں۔ ان زمینوں کی بحالی کیلئے حکومت اور مخیرحضرات اگر تعاون نہیں کریں گے تو مقامی چھوٹے کاشتکاروں کے بس میں نہیں ہوگا کہ وہ گھر بھی بنا سکیں۔ راشن کا بندوبست بھی کر سکیں اور زمین بھی بحال کرسکیں۔ اس کیلئے حکومتی سطح پر ہنگامی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ رفاہی تنظیموں نے ذمہ داران نے ایک مسئلہ مشترکہ بتایا کہ لوگ اس بات پر شدید پریشان ہیں کہ وہ کس مدد مانگیں؟ کس کا احسان لیں اور کس سے قرض مانگیں؟ جبکہ خود دار لوگ ان کی جان بچانے اور ہنگامی حالات میں مدد کرنے والوں (رفاہی تنظیموں) کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے احسانات کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔
ڈیرہ غاز خان میں تحصیل کوہِ سلیمان اور کوٹ چھٹہ سب سے زیادہ متاثر ہوئی تھی۔ الخدمت فائونڈیشن کے رہنما منیر کلاچی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ڈی جی خان میں کوٹ چھٹہ کے دریائے سندھ کے کچھ موضعات میں پانی موجود ہے اور ان بستیوں کے راستے میں پانی بتدریج اتر رہا ہے۔ دریا کے بیڈ کے اندر واقع علاقے دریا کے ساتھ ساتھ بارشوں کے پانی سے متاثر ہوئے تھے۔ رود کوہیوں نے جن علاقوں کو متاثر کیا تھا۔ وہاں پانی تو اتر گیا ہے۔ لیکن دیگر کئی مسائل موجود ہیں۔ جن میں متاثرین کی آبادکاری سب سے اہم مسئلہ ہے۔ جس پر پلاننگ میٹنگ ہو رہی ہے۔
تحصیل کوہ سلیمان کے حوالے سے الخدمت فائونڈیشن کے ذمے دار یوتھ ونگ کوٹ چھتہ کے رہنما واحد بخش مخلص نے بتایا کہ ابھی ڈیرہ غازی خان میں ڈیٹا مرتب کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر کوہ سلیمان کے علاقے میں صرف پندرہ روز قبل فورٹ منرو سے تین سے چار میل پیدل سفر کرکے بستی ہجبانی اور بستی شیر محمد کلوہی پہنچے تو وہاں تمام گھر گر چکے تھے۔ صرف دو گھر ایسے ملے جو مکمل طور پر مسمار نہیں تھے۔ ل؛یکن وہ بھی رہائش کے قابل نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کوٹ چھٹہ میں اب تک مرتب کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق آٹھ سو پینسٹھ گھر مسمار ہوئے ہیں۔ جن میں سے ساڑھے چھ سو ایسے ہیں جو مکمل طور پر گر گئے ہیں اور باقی بھی رہائش کے قابل نہیں رہے۔