یونیسکو کے ماہرین نے عالمی ورثہ کا معائنہ کیا ہے- حفاظتی دیواریں دوبارہ تعمیرکرنے کا آغازکردیا گیا۔فائل فوٹو
 یونیسکو کے ماہرین نے عالمی ورثہ کا معائنہ کیا ہے- حفاظتی دیواریں دوبارہ تعمیرکرنے کا آغازکردیا گیا۔فائل فوٹو

’’قدیم نظامِ نکاس کی بدولت موئن جو دڑو ڈوبنے سے بچا‘‘

احمد نجیب زادے:
دنیا کی قدیم تہذیب کے ہزاروں برس پرانے کھنڈرات موئن جو دڑو حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلے میں غرق ہونے سے محفوظ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہاں کا پانچ ہزار سال پرانا نکاسیِ آب کا نظام قرار دیا گیا ہے۔

عالمی ثقافتی ورثہ کی دیکھ ریکھ کے ادارے یونیسکو کے ماہرین اور حکام نے اس مقام کا جائز ہ بھی لیا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اس عالمی ورثہ کا دورہ کرکے اس کو پہنچنے والے نقصانات کو ملاحظہ کیا۔

موئن جو دڑو کی دیکھ بھال کرنیوالے حکام کا کہنا ہے کہ شدید بارشوں سے اس سائٹ کی کچھ دیواریں زمیں بوس ہوچکی ہیں۔ لیکن حکام کو خوشگوار حیرت اس بات کی بھی ہے کہ موئن جو دڑو میں پانی کی نکاسی کیلیے تعمیر کیا جانے والا پانچ ہزار برس پرانا نظام آج بھی سو فیصد کارگزار ہے، جو پانی کو شہر کے اندرجمع نہیں ہونے دیتا۔

ڈائریکٹر جنرل اینٹی کوئی ٹیز اینڈ آرکیالوجی منظور احمد نے بتایا ہے کہ اس نکاسی آب کے نظام کے تاحال کارآمد ہونے کا اندازہ اس وقت ہوا جب ماہرین یہاں پہنچے۔ ان کویقین تھا کہ یہاں شدید بارشوں کی وجہ سے پانی کھڑاہوگا اور اس کھڑے پانی کی وجہ سے اس قدیم مقام کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے اور دیواریں اور قدیم آثار مسمار ہوسکتے ہیں۔ لیکن انہیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ یہاں پر بارشیں تو شدید ہوئیں، لیکن پانی بالکل بھی کھڑا نہیں ہوا۔ کیونکہ موئن جودڑو کے معماروں نے اس مہارت سے نکاسی آب کا نظام تعمیر کیا تھا کہ بارشوں کا پانی بہہ کر کہیں بھی جمع نہیں ہوا۔ تمام پانی مخصوص نالیوںسے بہہ کر ایک مرکزی مقام پر جمع ہوگیا جہاں سے اس پانی کو محکمہ آثار قدیمہ کے حکام اور مزدوروں نے نکال کر سائٹ کو محفوظ بنا دیا۔

محکمہ آثار قدیمہ کے مقامی حکام نے موئن جو دڑو کا دورہ کرنے والے عالمی و مقامی صحافیوں کوبتایا ہے کہ قدیم نظام نکاسی آب کی تا حال کارگزاری کا اندازہ انہیں اگست 2022ء کے وسط میں ہونے والی طوفانی بارشوں کے دوران ہوا، جب سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں ریکارڈ 1400 ملی میٹر بارش برسی۔ ان شدید بارشوں کے نتیجہ میں موئن جو دڑو میں موجود مذہبی عمارت ’’اسٹوپا‘‘ کے باہر بنی حفاظتی دیوار بھی گر گئی۔ لیکن ماہرین کو یہاں کسی بھی مقام پر کہیں بھی بارش کا پانی کھڑا دکھائی نہیں دیا۔

موئن جو دڑو میں غیر ملکی نامہ نگاروں سے گفتگو میں مقامی حکام کاکہنا تھا کہ پورے ایریا میںپانی ٹھیرا ہی نہیں۔ بارش کی وجہ سے پریشان حکام ایمر جنسی میں یہاں پہنچے تو انہیں علم ہوا کہ مرکزی نالے سے بارش کا تمام پانی بہہ کر باہر نکل چکا ہے۔

منظور احمد نے بتایا کہ اس پوائنٹ سے پانی نکالنے میں میری یا محکمہ آثار قدیمہ کی ٹیم کا کوئی عمل دخل نہیں۔ پانی کا نکاس، قدیم نظام کی کارگزاری اور ساخت کی وجہ سے خود بخود ہوا ہے۔ جب پانی یہاں سے نکاس نالے کی مدد سے باہر نکل گیا تو باہر جا کر چند سال پہلے بنائے جانیوالے کمپاؤنڈ میں جمع ہو گیا۔ اس کمپائونڈ سے جمع پانی کو نکالنے میں ہمیں دو، تین ہفتے ضرورلگے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بارشوں سے جو دیوارگری وہ ایک نقصان ضرور ہے۔ لیکن پانی اس قدیم شہر میں جمع ہی نہیں ہوا۔

موئن جو دڑو کے حوالہ سے تحقیق کار اورایکسپرٹس پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ پانچ ہزار برس قدیم تہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شہر اپنے پائیدار نکاسی آب کے نظام کیلیے بھی مشہور ہے۔ یونیسکو سمیت عالمی ماہرین نے یہ بات بھی تسلیم کیا ہے کہ موئن جو دڑو کے شہری آبادکاری نظام یا ٹائون پلاننگ سسٹم کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ حالیہ بارشوں میں پانی کا نا ٹھیرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس تہذیبی مرکز شہر کا تمام نظام انتہائی مہارت کے ساتھ سوچ سمجھ کر ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ موئن جو دڑو کا یہ شہر اس وقت یہ جگہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر انتظام ہے۔ یونیسکو کی ایک ٹیم ہر ماہ یہاں سائیٹس کا بچشم خود معائنہ کرنے کیلئے آتی ہے۔

موئن جو دڑو کے کیوریٹر احسن عباسی بتا چکے ہیں کہ تعمیراتی مزدوروں اور انجینئرز کی ٹیمیں ماہرین آثار قدیمہ کی نگرانی میں مرمتی کام میں مشغول ہیں۔ اور جہاں جہاں بوسیدگی محسوس کی جارہی ہے، ان پوائنٹس کو درست کیا جارہا ہے۔ موئن جو دڑو کی سب سے اہم خاصیت وہاں موجود ’’گوتم بدھ کا اسٹوپا‘‘ ہے۔ کیوریٹر احسن عباسی کیمطابق سیلاب نے موئن جو دڑو کو نقصان نہیں پہنچایا لیکن شدید طوفانی بارشوں سے اس کی بیرونی اور بعض بڑی دیواروں کو نقصان پہنچا جو انفرادی کمروں کو الگ کرتی ہیں۔ موئن جو دڑو کے تاریخی کھنڈرات دریائے سندھ کے پاس جنوبی علاقہ میں واقع ہیں۔ موئن جو دڑو کو یونیسکو نے ’’عالمی ثقافتی ورثہ‘‘ قرار دیا ہوا ہے۔ موئن جو دڑو کے آثار قدیمہ کو 1922ء میں دریافت کیا گیا اور بہترین ٹائون پلاننگ کی وجہ سے ماہرین آج بھی اس تہذیب کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی وجوہات بیان کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

یونیسکو ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ موئن جو دڑو کی یہ تاریخی تہذیب قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا (عراق، بابل، نینوا) کی ہم عصر تھی۔ موئن جو دڑوکی دیکھ ریکھ کے تمام اقدامات یونیسکو کی تجاویز کے تحت اٹھائے جاتے ہیں۔ بارشوں کے بعداس تاریخی مقام کا دورہ کرنے والے میڈیا نمائندوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ معمار اور مزدورموئن جو دڑو کے بدھ اسٹوپا کی حفاظتی دیواریں دوبارہ تعمیر کررہے تھے۔ ماضی میں اس اسٹوپا کو قدرتی آفات سے بچائو کیلئے ارد گرد حفاظتی دیواریں تعمیر کی گئی تھیں، جو بارشوںکے نتیجہ میں گر گئی تھیں۔