احمد نجیب زادے:
کوویڈ19 کے عالمی منظر نامہ میں گھر سے کام کرنے کی سہولت نے عالمی کمپنیوں کے ملازمین کو سہل پسند بنا دیا ہے اوراب یہ ملازمین گھروں سے ہی کام کے خوگر ہوچکے ہیں اوردفترنہیں آنا چاہتے۔ لیکن کمپنیوں کا اصرار ہے کہ ملازمین کو اب دفتروں میں حاضر ہوجانا چاہیئے، کیونکہ کوویڈ سمیت دیگر مسائل کم ہوچکے ہیں۔ ادھر گوگل (Google) نے بھی اپنے تمام گھر بیٹھے ملازمین کیلیے گھر سے کام کرنے کا عمل بند کرنے کا عندیہ و مطالبہ کیا ہے۔
اس ضمن میں کہا جارہا ہے کہ کورونا کے خاتمہ کے بعد دفتروں میں ملازمین کی دوبارہ واپسی کے حوالہ سے کئی تجربات کیے جارہے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ گھر بیٹھ کر سہل پسندی کا شکار ہوجانے والے ملازمین دفتر واپس جانا نہیں چاہتے اور وہ مختلف حیلوں بہانوں سے کام لے کر کمپنیوں اوراپنے ایگزیکٹیوزکودبائو میں لینا چاہتے ہیں۔ امریکا سمیت کئی ممالک میں گھر بیٹھے ملازمین نے مظاہروں کا سہارا لیا ہے اور کمپنی باسز سے مطالبہ کیا ہے کہ جب کمپنیوں کا کام گھر بیٹھے چل رہا ہے تو ان کو دفتر بلوانے اور زحمت میں مبتلا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میڈیا اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ گوگل (Google) کی جانب سے لاگو چنیدہ اصول و ضوابط کیمطابق ملازمین کو وقت کے وقت بھی کام کو کہا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سلیکون ویلی میں گھر بیٹھے کام کے اچھے دن اب بہت جلد رخصت ہونے والے ہیں۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران دو ہائی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹیو افسران ’’میٹا‘‘ کے مارک زخر برگ اور’’ گوگل‘‘ کے ایگزیکٹیو سندر پچائی نے اپنی کمپنیوں میں ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی کیے جانے کی بات کرکے بطاہر چھانٹیوںکا اشارہ دیا ہے۔ جس کو عالمی معاشی تجزیہ نگاروں کی جانب سے ملازمین کو دفتر بلوانے کاایک حربہ قرار دیا ہے۔ گوگل(Google) نے بھی اپریل 2022ء میں دفتر سے کام کرنیکی کوویڈ دور کی اپنی پالیسی کا جائزہ لیکر اس فیصلہ پر نظر ثانی کی ہے اور تمام گھر بیٹھے ملازمین کیلیے قانون بنایا ہے کہ ہر ورکنگ ہفتہ میں تمام ملازمین کو کم از کم تین دن آفس بلایا جائے گا۔ اور تمام ملازمین کا دفتر میں تین دن تک حاضررہنا لازمی قرار دیا ہے۔ لیکن گھر بیٹھے کام کے خوگر بن جانیوالے تمام ملازمین نے نئی پالیسی اور قوانین کی مزاحمت کی ہے۔ کیونکہ ان ملازمین کا دعویٰ ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر زیادہ بہتر طور پر کام انجام دے رہے ہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق ستائیس ممالک میں چھتیس ہزار ملازمین سے کئے جانیوالے سوالات کے جوابات کی روشنی میں مرتب کردہ نتائج نے بتایا گیا ہے کہ عالمی کمپنیوں کے ملازمین اب گھروں کام کرنے کو سہل پسندی طریقہ کے بطور دیکھتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ان کا دفتر آنا کوئی اتنا مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ گھر بیٹھ کر کام کررہے ہیں اور یہ زیادہ آسان ہے۔ لیکن کئی کمپنیوں کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ گھر بیٹھے کام کرنا کوویڈ دور کے مسائل کاایک حل تھا۔ لیکن اب ان کو واپس دفتر کی جانب آجانا چاہئے کیونکہ گھر بیٹھ کر کام کرنے سے ملازمین کی صحت خراب ہوسکتی ہے۔ مختلف عالمی کمپنیوں کے ایگزیکٹیوز، ملازمین کے کام کے دورانیہ میں اضافہ چاہتے ہیں۔ ایسی کمپنیاں اور ان کے باسز اپنے ورکروں کو زیادہ سے زیادہ دفتر میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میںکئی ہائی ٹیک کمپنیوں ںکی طرح گوگل بھی اپنے ملازمین کو گھر سے واپس دفتر لانے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن ملازمین اس کی مزاحمت کررہے ہیں۔
جرمن جریدے’’ ڈائی بلڈ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک تازہ بین الاقوامی مطالعاتی جائزے کے نتائج سے علم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں گھر بیٹھے کام کرنیوالے ورکرزکی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی۔ یہ افراد دفاتر آنے کی بجائے گھروں سے کام کرنے کیلیے کچھ وقت اضافی بھی دینے کی پیشکش کرچکے ہیں۔ ’’جرمن آئی ایف او انسٹیٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ‘‘ کے تحت شائع ہونے والے ایک سروے نتائج کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ستائیس ممالک میں اہم صنعتوں اور دیگر شعبہ جات میں ملازمین نے فی ہفتہ کم و بیش ڈیڑھ دن گھر بیٹھے دفتر کا کام انجام دیا۔ یاد رہے کہ کئی ممالک میں کورونا وبا ختم ہوچکی ہے اور اس ضمن تمام پابندیاں ہٹائی جاچکی ہیں۔ لیکن چنیدہ ممالک میں کہا جارہا ہے کہ یہاں عالمی وبائی مرض کوروناکا تاحال خاتمہ نہیں ہوا ہے۔
کچھ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق اب بھی دفاتر پہنچ کر یا گھر بٹھاکرپیشہ ورانہ کاموں کی انجام دہی کے حوالہ سے کئی عالمی کمپنیاں الگ اندازاور منفرد پالیسیوں کے تحت کام کررہی ہیں۔ بہت سی عالمی و یورپی کمپنیوں کے ملازمین گزشتہ ایک برس سے گھر بیٹھے کام انجام دے رہے ہیں۔ لیکن اسی منظر نامہ میں کئی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کوبزور آفس بلوالیا ہے جو آفس کی بجائے گھروں میں بیٹھ کر کام کررہے ہیں۔