ندیم محمودَ:
اس وقت تقریباً پورے ملک میں آٹے کا شدید بحران چل رہا ہے۔ خاص طور پر صوبہ خیبرپختون، سندھ اور بلوچستان میں بیس کلو آٹے کا تھیلا دوہزار روپے سے زائد کا ہوچکا ہے۔ تاہم ایسے میں روٹی کے متلاشی غریبوں کے لیے یوٹیلٹی اسٹورز نعمت بن گئے ہیں، جہاں دیگراشیا خورونوش کی قیمتوں پر تو مہنگائی اثرانداز ہوئی ہے لیکن آٹا اب بھی دوبرس پرانی قیمتوں پر دستیاب ہے۔ جہاں یوٹیلٹی اسٹوروں کا یہ مثبت پہلو سامنے آیا ہے، وہیں ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ فرد واحد کی ایک نجی کمپنی کوالٹی کنٹرول کے نام پر ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے ماہانہ کمارہی ہے۔ یہ سلسلہ پی ٹی آئی کے دور حکومت سے شروع ہوا تھا اور تاحال جاری ہے۔اگر یہی ذمہ داری یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن خود نبھاتی تو سرکاری خزانے کو فائدہ پہنچتا۔
ملک بھر میں یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد پانچ ہزار سے زائد تھی، تاہم تقریباً دو برس پہلے پی ٹی آئی کے دور حکومت کے دوران ایک ہزار یوٹیلٹی اسٹورز بند کردیے گئے تھے۔ یوں اس وقت یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد چار ہزار سے زائد ہے۔ ملک کے تمام یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹا چالیس روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب ہے۔ یعنی دس کلو آٹے کا تھیلا چار سو روپے اور بیس کلو کا بیگ آٹھ سو روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ دو برس پہلے بھی بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت آٹھ سو روپے تھی۔ تب اوپن مارکیٹ میں آج کے مقابلے میں آٹا سستا تھا۔ اس فرق کو کم کرنے کے لئے شہباز شریف کی وفاقی حکومت نے آٹے پر سرکاری سبسڈی بڑھادی۔ تاکہ پرانی قیمت کو برقرار رکھا جاسکے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ذرائع نے بتایا کہ کارپوریشن ملوں سے بیس کلو آٹا پندرہ سو روپے کے حساب سے خرید رہی ہے۔ یوں وفاقی حکومت فی تھیلے پر سات سو روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ اسی طرح دس کلو کے تھیلے پر سرکاری سبسڈی ساڑھے تین سو روپے بنتی ہے۔
اس وقت اوپن مارکیٹ میں سب سے سستا آٹا پنجاب میں ہے۔ کیونکہ حمزہ شہباز نے اپنے مختصر دور میں صوبے کے عوام کے لے اوپن مارکیٹ میں بھی آٹے پر سبسڈی دی تھی۔ پرویزالٰہی حکومت نے اس سبسڈی کو برقرار رکھا ہے۔ پنجاب کی اوپن مارکیٹ میں بیس کلو آٹے کا تھیلا تقریباً ساڑھے نوسو روپے میں دستیاب ہے۔ جبکہ یوٹیلٹی اسٹورز پر یہ تھیلا آٹھ سو روپے میں مل رہا ہے۔ پنجاب میں تقریباً پندرہ سو کے قریب یوٹیلٹی اسٹورز ہیں۔ ایک یوٹیلٹی اسٹور پر یومیہ آٹے کے تین سو سے چار سو بیگ دستیاب ہوتے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اس وقت ملک بھر کے یوٹیلٹی اسٹوروں پر آٹے کے بیس کلو بیگ کے بجائے دس کلو کا تھیلا فروخت کیا جارہا ہے۔
آٹے کے بحران کے حوالے سے اگرچہ سندھ اور بلوچستان میں بھی صورتحال گھمبیر ہے، تاہم خیبرپختونخوا میں یہ معاملہ زیادہ سنگین ہے، جہاں اوپن مارکیٹ یعنی بازاروں میں بیس کلو آٹے کا بیگ تئیس سے چوبیس سو روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ جبکہ یوٹیلٹی اسٹورز پر یہی تھیلا اس کے مقابلے میں نصف سے بھی کم قیمت یعنی محض آٹھ سو روپے میں دستیاب ہے۔
واضح رہے کہ خیبرپختون خوا میں ایک ہزار سے زائد یوٹیلٹی اسٹورز ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں پچھلے تقریباً نو برس سے برسراقتدار پی ٹی آئی حکومت نے اپنے عوام کو ریلیف دینے کے لئے آٹے پر کسی قسم کی سبسڈی نہیں دی ہے۔ شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے نظر انداز شدہ عوام کو آٹے کی مد میں ریلیف دینے کا فیصلہ کیا۔ اور یوٹیلٹی اسٹورز کے علاوہ خیبرپختونخوا میں آٹے کے پانچ سو سیل پوائنٹ قائم کئے۔ اس کا ایک مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا تھا۔ تاہم اس سے صوبے کے غریب عوام کو کسی حد تک ریلیف بھی مل رہا ہے۔ آٹے کے یہ سیل پوائنٹس صرف خیبرپختونخوا میں قائم کئے گئے ہیں۔ ہر سیل پوائنٹ پر یومیہ دو سے چار سو آٹے کے تھیلے فراہم کئے جارہے ہیں۔ اگر ایک سیل پوائنٹ پر اوسطاً یومیہ آٹے کے دوسو بیگ بھی فروخت کئے جارہے ہیں تو یہ تعداد ایک لاکھ یومیہ بنتی ہے۔
کراچی سمیت سندھ میں بھی اوپن مارکیٹ میں بیس کلو آٹے کا تھیلا بائیس سو سے چوبیس سو روپے تک فروخت ہورہا ہے۔ یوں صوبے میں سات سو کے قریب یوٹیلٹی اسٹور غریبوں کے لیے ریلیف کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ لیکن آبادی کے تناسب سے یوٹیلٹی اسٹوروں کی یہ تعداد بہت کم ہے۔ یوں اس ریلیف سے غریب عوام کی ایک مختصر تعداد ہی فائدہ اٹھاپارہی ہے۔ یوٹیلٹی اسٹوروں کی سہولت کے لحاظ سے سب سے متاثرہ صوبہ بلوچستان ہے۔ جہاں محض ڈیڑھ سے پونے دوسو کے قریب یوٹیلٹی اسٹورز ہیں۔ ان میں سے بیشتر دوردراز کے علاقوں میں ہیں۔ لہٰذا آٹے کی نقل و حمل میں بھی دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ بلوچستان میں بھی اوپن مارکیٹ میں بیس کلو آٹے کا تھیلا تئیس سے چوبیس سو روپے میں دستیاب ہے۔ وفاقی دارالحکومت کی بات کی جائے تو اسلام آباد میں یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد چوہتر کے قریب ہے۔ یہاں اوپن مارکیٹ میں بیس کلو آٹے کا تھیلا سترہ سے اٹھارہ سو روپے میں فروخت ہورہا ہے۔
یوٹیلٹی اسٹورز کو پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروس کارپوریشن (پاسکو) گندم فراہم کر رہی ہے۔ پاسکو ہر زون کا کوٹہ مقرر کرتی ہے۔ پھر زون آگے ریجن کو آٹا فراہم کرتا ہے۔ ہر سال ٹینڈر کے ذریعے ملوں سے آٹے کی خریداری کی جاتی ہے۔ سیکورٹی ڈپازٹ کی مد میں ملیں ایک مخصوص رقم جمع کراتی ہیں، جو سال بھر کے لئے ہوتی ہے۔ ہر سال اس کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔ قانون یہ ہے کہ اگر کوئی مل مقررہ معیار سے کم کوالٹی کا آٹا فراہم کرے گی تو اسے بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔ اور اس کا سیکورٹی ڈپازٹ بھی ضبط کرلیا جائے گا۔ تاہم اس قانون پر شاذونادر عمل ہوتا ہے۔
عام طور پر یوٹیلٹی اسٹورز پر دستیاب آٹے کے معیار کے بارے میں شکایات سننے میں آتی رہتی ہیں۔ بظاہر ان شکایات کے ازالے کے لئے ایک پرائیویٹ کمپنی کو آٹے کی کوالٹی کنٹرول کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔ اس کے باوجود بھی ان شکایات میں نمایاں کمی نہیں آسکی ہے۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں یوٹیلٹی اسٹورزپرآٹا فراہم کرنے والی ملوں کے آٹے کا معیار چیک کرنے کے لیے ایک نجی کمپنی ’’ایم بی ایم سی‘‘ اور کارپوریشن کے مابین سترہ مارچ دوہزار بیس کو معاہدہ ہوا تھا، جو ایک برس بعد سولہ مارچ دوہزار اکیس کو ختم ہونا تھا۔ تاہم معاہدے میں توسیع کردی گئی۔ اس معاہدے کے تحت یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن، نجی کمپنی کو آٹے کی کوالٹی چیک کرنے کی مد میں فی بیگ دوروپے ادا کرتی ہے۔ یوں اگر ملک بھر کے چار ہزار سے زائد یوٹیلٹی اسٹوروں پر ماہانہ ایک کروڑ آٹے کے تھیلے فروخت کئے جارہے ہیں تو یہ رقم دوکروڑ روپے بنتی ہے۔ ماہانہ پچاس لاکھ آٹے کے تھیلے بھی لگائے جائیں تو نجی کمپنی کو ہر ماہ اس مد میں ایک کروڑ روپے ادا کئے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ کمپنی کو فی سیمپل دوہزار روپے الگ سے دیے جاتے ہیں۔کمپنی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پورے پاکستان میں کسی بھی یوٹیلٹی اسٹور سے آٹے کا سیمپل اٹھاکر لیبارٹری سے چیک کراسکتی ہے۔
عموماً آٹے کی کوالٹی خراب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نجی کمپنی کے پاس اپنا کوئی موثر نیٹ ورک نہیں ہے۔ نہ اس کے پاس اس نوعیت کا تجربہ ہے۔ اسی طرح کمپنی کی اپنی ذاتی لیبارٹری بھی نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس نجی کمپنی کو اس وقت کے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ایم ڈی عمر لودھی نے یہ ٹھیکہ دیا تھا۔ عمر لودھی کا شمار عمران خان کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے اور ان کے خلاف نیب میں کیسز زیر التوا ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت نے بھی اس ٹھیکے کو ختم نہیں کیا ہے۔ کارپوریشن کے ایک ذریعے کے بقول آٹے کی کوالٹی کنٹرول کو آئوٹ سورس کرنے کے بجائے اگر یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشنز کا اپنا سسٹم ہو تو زیادہ بہتر طریقے سے آٹے کے معیار پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ اور پیسہ بھی سرکاری خزانے میں آئے گا۔