ندیم محمود: دوسری اور آخری قسط
ہم جنس پرستی کے علمبردار عالمی نیٹ ورک ایل جی بی ٹی کی پاکستان میں سرگرمیاں ابتدا میں تو ڈھکے چھپے انداز میں جاری تھیں۔ تاہم پچھلی ایک دہائی سے ان سرگرمیوں میں نہ صرف اضافہ ہوا۔ بلکہ پاکستان میں ہم جنس پرستوں (ایل جی بی ٹی افراد) کو تحفظ اور سپورٹ فراہم کرنے والی باقاعدہ تنظیم بھی قائم کرلی گئی۔ ناز (NAZ) نامی یہ تنظیم قریباً گیارہ برس سے علی الاعلان ملک کے مختلف شہروں میں کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں۔ اور یہ سوشل میڈیا پر بھی پوری طرح متحرک ہے۔ ’’ناز‘‘ نامی یہ تنظیم پاکستان سمیت دنیا کے سینتالیس ممالک میں ہم جنس پرستی کے فروغ کے لیے کام کرنے والے نیٹ ورک ’’دی کامن ویلتھ ایکولیٹی نیٹ ورک‘‘ کا حصہ ہے۔ جبکہ ’’ناز‘‘ کا کرتا دھرتا قاسم اقبال، دولت مشترکہ کے ارکان ممالک کے اس عالمی نیٹ ورک کی منیجنگ ٹیم کا رکن ہے۔ عالمی نیٹ ورک کی طرف سے ’’ناز‘‘ کو باقاعدہ مالی اور تکنیکی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہی تکنیکی تعاون اور دیگر وسائل ’’ناز‘‘ پاکستان میں خفیہ طریقے سے ایل جی بی ٹی کے لئے کام کرنے والی چھوٹی بڑی تنظیموں اور این جی اوز کو فراہم کرتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں بظاہر خواجہ سرائوں کے تحفظ کے لئے متعارف کرائے جانے والے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ دو ہزار اٹھارہ کو نافذ العمل کرانے میں بھی ’’ناز‘‘ نے بھرپور لابنگ کی تھی۔
نون لیگ کے گزشتہ دور کے آخری دنوں میں جلد بازی میں منظور کرائے جانے والے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ دو ہزار اٹھارہ کا کریڈٹ اگرچہ اس وقت کی پارلیمنٹ میں موجود نون لیگ، پیپلز پارٹی، قاف لیگ، ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ لیتے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس ایکٹ کو منظور کرانے میں ایل جی بی ٹی کے عالمی نیٹ ورک سے منسلک ’’ناز پاکستان‘‘ نامی تنظیم نے بھی بھرپور لابنگ کی تھی۔ اپنی ان کوششوں کا باقاعدہ اظہار کرنے کے لئے ’’ناز‘‘ نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر ایک پمفلٹ شائع کیا تھا۔ جبکہ ’’ناز‘‘ نے ایکویلٹی اینڈ جسٹس الائنس کے تعاون سے ایک رپورٹ بھی جاری کی۔ اس رپورٹ میں ’’ناز‘‘ نے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن رائٹس ایکٹ دو ہزار اٹھارہ کو منظور کرانے کے لئے کی جانے والی اپنی لابنگ، گفت و شنید اور دیگر سرگرمیوں کا ذکر کیا تھا۔
دو ہزار گیارہ میں قائم ہونے والی ’’ناز‘‘ پاکستان کی پہلی اور واحد ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی علمبردار تنظیم ہے۔ جو کھل کر ملک بھر میں ہم جنس پرستوں کو سپورٹ کرتی ہے۔ اس کے برعکس ایل جی بی ٹی کو سپورٹ کرنے والی دیگر چھوٹی بڑی تنظیمیں اور این جی اوز منظر عام پر آنے کے بجائے چھپ کر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
’’ناز‘‘ نامی تنظیم نہ صرف پاکستان میں ایل جی بی ٹی افراد کے تحفظ اور مدد کے لئے کام کر رہی ہے۔ بلکہ مختلف بین الاقوامی فورمز کو وقتاً فوقتاً پاکستان میں ہم جنس پرستوں کو درپیش مشکلات اور مسائل سے بھی آگاہ کرتی رہتی ہے۔ تاکہ وہ پاکستانی حکومت پر دبائو ڈال کر ہم جنس پرستوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ اس کی ایک مثال ’’ناز‘‘ کے روح رواں قاسم اقبال کا بلجیم کے کمشنر جنرل برائے پناہ گزینوں سے متعلق ریسرچ یونٹ (جس کا الحاق یورپی یونین سے بھی ہے) ’’سیڈوکا‘‘ کو پندرہ اپریل دو ہزار بیس کو کیا جانے والا ای میل بھی ہے۔ CEDOKA کو بھیجے گئے ای میل میں قاسم اقبال کہتا ہے ’’پاکستان میں ہم جنس پرستوں کا مرکز خفیہ پارٹیاں ہیں۔ جو زیادہ تر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ہوتی ہیں۔ جس میں عموماً ایلیٹ کلاس کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔
بعض پارٹیوں میں لوئر مڈل کلاس کے لوگ بھی دیکھے جاتے ہیں۔ ان پارٹیوںکے زیادہ تر دعوت نامے ایس ایم ایس اور فیس بک کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں۔ اور عام طور پر آخری لمحات میں جگہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ایسی پارٹیوں کی حفاظت کے لئے منتظمین عموماً پولیس کو معاوضہ دیتے ہیں۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے ہم جنس پرست زیادہ تر زیر زمین رہتے ہیں۔ تاہم اشرافیہ کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا‘‘۔ سیڈوکا ہی کو اپنے ایک اور ای میل میں پاکستان میں ایل جی بی ٹی کے فروغ کی معلومات فراہم کرتے ہوئے قاسم اقبال نے بتایا ’’ایسی بہت سی تنظیمیں ہیں جو پورے پاکستان میں ایل جی بی ٹی افراد کے لئے کام کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں زیادہ تر بڑے شہروں میں ہیں۔ لیکن کچھ چھوٹے علاقوں میں بھی پائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے لیے کام کرنے والی زیادہ تر تنظیمیں گلابی مثلث (Pink Triangle) نامی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ جن میں ’’ناز‘‘ بھی شامل ہے۔ یہ نیٹ ورک ان تمام تنظیموں پر مشتمل ہے، جو پاکستان میں ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے لئے کام کر رہی ہیں‘‘۔
پنک نیوز دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بااثر ایل جی بی ٹی میڈیا برانڈ ہے۔ پچھلے سترہ برس سے پنک نیوز نے ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی حمایت میں عالمی مہم چلا رکھی ہے۔ قاسم اقبال نے پنک نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’پاکستان میں ٹرانس لوگوں کے لئے صورتحال نازک ہے۔ تاہم دو ہزار اٹھارہ میں ’’ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن ایکٹ‘‘ کی منظوری کے بعد اس میں قدرے بہتری آئی ہے‘‘۔ لیکن ساتھ ہی وہ مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ ’’مجھے کم از کم اپنی زندگی کے دوران، پاکستان میں ایل جی بی ٹی (ہم جنس پرستوں) کے حقوق ملتے نظر نہیں آتے۔ کیونکہ پاکستان کی اسلامی لابی بہت مضبوط ہے‘‘۔
دوسری جانب پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک این جی او نینگر سوسائٹی نے دسمبر دو ہزار تیرہ میں آئی آر بی کو بتایا تھا کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں سوشل میڈیا گروپس اور منظم میٹنگز ایل جی بی ٹی افراد کے لئے موجود ہیں۔ تاہم، یہ سرگرمی زیادہ تر اشرافیہ کے طبقے میں موجود ہے۔
اب ذرا ایل جی بی ٹی کے عالمی علمبردار ’’دی کامن ویلتھ ایکولیٹی نیٹ ورک‘‘ کے بارے میں بات ہوجائے۔یہ دولت مشترکہ کے ان سینتالیس ممالک پر مشتمل نیٹ ورک ہے، جو برطانیہ کی غلامی میں رہے۔ یہ نیٹ ورک پاکستان سمیت دولت مشترکہ کے دیگر ارکان ممالک میں ایل جی بی ٹی کے فروغ، اجتماعی وکالت اور انہیں متحرک کرنے کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک دو ہزار تیرہ میں قائم کیا گیا تھا۔ اور اب دولت مشترکہ کے سینتالیس ممالک میں اس کی مختلف ناموں سے نمائندہ تنظیمیں اور نمائندے سرگرم ہیں۔ دو ہزار گیارہ میں پاکستان میں قائم ہونے والی ’’ناز‘‘ بھی اپنے قیام کے دو برس بعد اس نیٹ ورک کا حصہ بن گئی۔ ’’دی کامن ویلتھ ایکولیٹی نیٹ ورک‘‘ کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ وہ جنسی رجحان، صنفی شناخت و اظہار اور جنسی خصوصیات پر مبنی عدم مساوات کو چیلنج کرنے والی تنظیموں کا نیٹ ورک ہے۔ نیٹ ورک کا مقصد دولت مشترکہ میں ایل جی بی ٹی برادریوں کو عالمی آواز فراہم کرنا ہے۔ نیٹ ورک کی رکنیت زیادہ تر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی تنظیموں پر مشتمل ہے۔
اس رپورٹ کی گزشتہ قسط میں پاکستان میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ دو ہزار اٹھارہ میں ترامیم پیش کرنے والے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی خصوصی بات چیت شائع کی گئی تھی۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’اس ایکٹ کے پیچھے عالمی ادارے اور امریکی سفارتخانہ ہے۔ امریکہ کا یہ اعلانیہ موقف ہے کہ وہ پاکستان میں ایل جی بی ٹی کا تحفظ کرے گا‘‘۔
امریکی سفارتخانے کی جانب سے ایل جی بی ٹی کے حقوق کی حمایت پر مبنی ٹویٹ سے سینیٹر مشتاق احمد کی اس بات کو تقویت ملتی ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے رواں برس سترہ مئی کو اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’’مشن پاکستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کو مضبوط اور سپورٹ کرنے کے لئے کام کرتا ہے۔ ہم روز اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور انہیں ظلم سے محفوظ رکھا جائے۔ ہم مکمل مساوات کے لئے دبائو ڈالتے رہتے ہیں‘‘۔ اس ٹویٹ پر شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم تقریباً چار ماہ گزرنے کے بعد بھی امریکی سفارتخانے کی آفیشل ویب سائٹ پر یہ ٹویٹ موجود ہے۔ یہ سراسر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قوانین کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ جہاں ہم جنس پرستوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
اسی طرح دو ہزار گیارہ میں امریکہ نے پہلی بار اسلام آباد میں واقع اپنے سفارتخانے میں ایل جی بی ٹی افراد کی تقریب منعقد کی تھی۔ امریکی سفارتخانے نے ہم جنس پرستوں کے اس ایونٹ کو اپنی بڑی فتح قرار دیا تھا۔ اس تقریب کے خلاف جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی تنظیموں نے بھرپور مظاہرے کئے تھے۔ اور اس ایونٹ کو ثقافتی دہشت گردی قرار دیا تھا۔
ایل جی بی ٹی کی پہلی سالانہ تقریب امریکہ میں منعقد ہوئی
ایل جی بی ٹی (LGBT) لیسبیئن (خواتین کی ہم جنس پرستی، گے (مردوں کی ہم جنس پرستی) ، بائی سیکسولائٹی (مرد و خواتین دونوں کی ہم جنس پرستی) اور ٹرانس جینڈر (مخنث یا خواجہ سرا) کا مخفف ہے۔ ایل جی بی ٹی اب ایک عالمی نیٹ ورک ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ جہاں اس کے لاکھوں ہم جنس پرست پیروکار موجود ہیں۔ وسیع پیمانے پر یہی کوشش اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی کی جارہی ہے۔
ہم جنس پرستوں کے لئے پہلے صرف ’’ایل جی بی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ اس کا آغاز انیس سو اسّی کی دہائی کے وسط سے ہوا تھا۔ تب ٹرانس جینڈر یعنی خواجہ سرائوں کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ لہٰذا ’’ٹی‘‘ کا لفظ موجود نہیں تھا۔ نوے کی دہائی میں خواجہ سرائوں کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا اور یوں ہم جنس پرستوں کے لئے ’’ایل جی بی ٹی‘‘ کی اصطلاح رائج ہوگئی۔ اس کے ساتھ کیو (Q) کا اضافہ ایسے لوگوں کے لئے کیا گیا، جو اپنی جنسی یا صنفی شناخت پر سوال اٹھارہے ہیں۔
اس سے قبل خاص طور پر امریکہ میں انیس سو ستر کی دہائی میں صرف ہم جنس پرست (HOMOSEXUAL) کی اصطلاح استعمال ہوتی آرہی تھی۔ انیس سو اٹھاسی سے امریکہ میں ہم جنس پرستوں نے ایل جی بی ٹی کی اصطلاح استعمال کرنی شروع کی۔ یعنی ہم جنس پرست گروپوں اور ایل جی بی ٹی برادری، دونوں شیطانی کھیلوں کا آغاز امریکہ سے ہوا تھا۔ جہاں ہم جنس پرستوں کی مختلف کٹیگریزکو برادری کی شکل دی گئی۔ انیس سو چورانوے میں ایل جی بی ٹی کی پہلی سالانہ تقریب امریکہ میں ہوئی اور اس کے بعد اسے دوسرے ممالک میں بھی منایا جانے لگا۔ امریکہ سے اٹھنے والی ایل جی بی ٹی کی تحریک کو اس وقت کامیابی ملی۔ جب ملکہ بیٹرکس نے ایک قانون پر دستخط کئے۔ جس نے ہالینڈ کو ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے والا پہلا ملک بنادیا۔
ایل جی بی ٹی برادری نے اپنی شناخت کے لیے اگرچہ مختلف مخصوص علامتوں کو اپنایا ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ پہچانی جانے والی دو علامتیں ’’گلابی مثلث‘‘ (Pink Triangle) اور ’’قوس و قزح کا جھنڈا‘‘ (Rainbow Flag) ہیں۔