احمد خلیل جازم:
ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء کے حوالے سے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے سخت خدشات اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ قانون، قرآن و سنت کے صریحاً خلاف ہے۔ یہ یورپ کا مادر پدر آزاد کلچر تو ہو سکتا ہے، لیکن ہمارا نہیں۔ اس سے پاکستانی معاشرے میں تباہی پھیلے گی اور ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔ جبکہ یہ ایکٹ مسلم ممالک کے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی بھی سازش ہے۔ اس سے فتنوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیف ریسرچ آفیسر مفتی غلام ماجد نے اس ایکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ’’امت‘‘ کو بتایا ’’بیرونی میڈیا کا یہ پروپیگنڈا ہے کہ بہت سے پاکستانی علما نے اس قانون کو تسلیم کرلیا ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ وہ کون سے ’’علما‘‘ ہیں جنہوں نے اسے قبول کیا ہے؟ میرے علم میں تو نہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے اسے مسترد کیا ہے۔ اس ایکٹ کو سب نے قرآن و سنت کے خلاف قرار دیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے رواں برس 19 مئی کو اس ایکٹ میں جو شقیں قرآن و سنت کے خلاف ہیں ان کی باقاعدہ نشان دہی کر دی تھی۔ اس قانون کے تحت اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی جنس کی اجازت معلوم ہوتی ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اس ایکٹ سے جنس اور صنف کو اپنے طور پرالگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا تصور قرآن و سنت میں ہے اور نہ ہی ہمارے آئین میں ہے۔ جنس اور صنف ایک ہی ہے۔ اسے الگ تصور نہیںکیا جا سکتا۔ یہ ایکٹ اس لیے بھی قرآن و سنت کے خلاف ہے کہ اس سے وراثت کے حکم کی نفی ہوتی ہے۔ کیونکہ ’ٹرانس جینڈر مرد‘ حقیقت میں عورت ہے اور اسے مرد والا حصہ دیا گیا۔ جبکہ ’ٹرانس جینڈر عورت‘ حقیقت میں مرد ہے، اسے عورت والا حصہ دیا گیا ہے۔ اس پر چار بنیادی اعتراضات ہیں۔ ایک خصی کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ دوم تبدیلی جنس کی اجازت مل رہی ہے۔ تیسرے، جنس اور صنف کی تفریق کی بات کی گئی ہے، جس کا کوئی تصور قرآن و سنت میں نہیں ہے۔ اور آخری اعتراض وراثت کا اندراج ہے، جو قرآن و سنت کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب تبدیلی جنس کا جو عمل اس طریقے سے بیان کیا گیا ہے، اس سے ہم جنس پرستی کو ہوا ملے گی۔ اس کا راستہ تو یہاں سے بنتا دکھائی دے رہا ہے‘‘۔
سید محمد کفیل شاہ بخاری، مرکزی امیر مجلس احرار اسلام پاکستان کا کہنا تھا ’’بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والے سمجھتے ہیں کہ اس بل سے انہیں فتح حاصل ہوئی ہے، تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جنس تو اللہ نے دو ہی بنائی ہیں، انہی سے تخلیق انسانی کا سلسلہ چل رہا ہے۔ بظاہر تو ٹرانس جینڈرز کو ایک تیسری جنس قرار دیا گیا ہے۔ لیکن انسانوں میں تیسری جنس کوئی نہیں، یہ تو معذور ہیں جیسے ایک انسان ایک آنکھ، کان یا زبان سے معذور ہوتا ہے۔ اسی طرح انسانوں کے اندر بعض لوگ مردانہ صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کے اندر بھی کئی اقسام ہیں۔ ان کی نشوونما درست نہ ہوسکی یا پیدائشی طورپرکوئی کمی رہ گئی تو انہیں ’تیسری جنس‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہمارے ہاں ایسے واقعات تو ہوتے ہیں کہ ایک لڑکی اچانک لڑکا بن گئی، اس کا باقاعدہ میڈیکل چیک ہوا تو پتا چلا نشوونما ٹھیک نہیں ہے، آپریشن سے مرد بنا جا سکتا ہے۔ اس بل میں خواجہ سرائوں کے حقوق کی بات کی گئی ہے، جبکہ وہ خود اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے خلاف سازش ہے۔ ایک مرد نادرا آفس جاکر کہتا ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں عورت ہوں، تو نادرا اسے عورت لکھنے کا پابند ہے۔ وہ حلفی بیان لکھ دیں گے۔ پھر وہ مرد خود کو عورت قرار دے کر کسی مرد سے شادی کرلے گا۔ یہی تو ہم جنس پرستی ہے۔ پاکستان کو اسی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ یہ بل LGBT کا ہی ایجنڈا ہے۔ دیکھیں، اس بل کو پورے یورپ میں کتنے ممالک اپلائی کررہے ہیں؟ سارا زور مسلم ممالک پر ہے۔ اس کے پیچھے اصل منصوبہ بندی ہی یہی ہے کہ مسلم معاشرے سے خاندانی نظام کو تباہ کیا جائے۔ ہمارا فیملی سسٹم ہے، جس میں ہماری ویلیوز ہیں۔ ہمارا اپنا عقیدہ ہے، حرام اور حلال ، محرم و نامحرم کی تخصیص ہے۔ اصول و قانون، عزت و حرمت سمیت نسب کی حفاظت موجود ہے۔ یہ ایکٹ سب کو تباہ کرنے کی ساز ش ہے۔ اب رہی بات خواجہ سرائوں کے حقوق کی، تو شرعی طورپر انہیںجائیداد میں حصہ ملے گا۔ اگر میڈیکلی مردانہ علامات ہیں تو مرد کا اور نسائی صفات و علامات پر عورت کا حصہ ملے۔ ظاہر ہے ان کا نسب تو آگے چلے گا نہیں۔ لیکن جب تک وہ زندہ ہیں جائیداد میں حصہ ملنا چاہیے، مرنے کے بعد اس کے وارث اس کے بہن بھائی ہوں گے۔ انہیں فیملی میںایڈجسٹ کرنا چاہیے جیسے دیگر معذور افراد کا خاندان خیال رکھتا ہے۔ ورنہ حکومت ان کے تحفظ، نان و نفقہ کا خیال رکھے۔ یہ ریاست کے شہری ہیں، بلکہ ایسا قانون ہو کہ فیملی انہیں اپنے ساتھ رکھنے اور ان کا خیال رکھنے پر مجبور ہو‘‘۔
خواجہ خلیل احمد مرکزی سرپرست اعلیٰ جمعیت علمائے اسلام، خانقاہ سراجیہ کا کہنا تھا ’’ہمارا موقف وہی ہے جو جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ہے۔ جمعیت کی خواہش ہے کہ وہ اس پر ترمیمی بل لے کر آئے۔ ہم اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ اگر یہ متنازعہ بل پاس ہوکر نافذ ہوتا ہے تو اس سے ہمارے کلچر اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ یہ جو آزاد خیالی ہے یہ ہمارے خطے کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہ یورپ کا کلچر تو ہوسکتا ہے، لیکن ہمارا نہیں۔ اس بل سے جنسی بے راہ روی کی شروعات ہوں گی۔ یہ پہلی شروعات ہے اس کے بعد اس کا دوسرا فیز شروع ہوگا، پھر تیسرا ہوگا۔ یوں اسے کوئی نہیں روک سکے گا۔ میری مولانا فضل الرحمان صاحب سے اس پر تفصیلی بات ہوئی ہے کیونکہ میں جمعیت علمائے اسلام کی شوریٰ کا اور عاملہ کا رکن بھی ہوں۔ مولانا فضل الرحمان نے فرمایا تھا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں‘‘۔