سید علی حسن:
کراچی سینٹرل جیل بااثر اور مال دار قیدیوں کیلیے آرام گاہ بن گئیں۔ 50 ہزار سے 5 لاکھ روپے ادا کرنے پر وی آئی پی بیرکس میں رکھا جاتا ہے۔ جہاں سونے کیلیے اچھی جگہ، مکمل بستر، 2 سے 3 گھنٹے بیرک سے باہر نکلنے کی اجازت سمیت ضروری اشیا فراہم کی جاتی ہیں۔ منہ مانگی رشوت ادا کرنے پر اہلخانہ کے ساتھ ماڑی اور بی کلاس روم میں خصوصی ملاقات کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ نئے آنے والے قیدیوں کو کراٹین میں رکھ کر مقدمات کے حساب سے وصولی کی جاتی ہے۔ ہر وارڈ میں تعینات بیٹ انچارج صفائی ستھرائی اور دیگر مد میں بھی ہفتہ وصول کرتے ہیں۔ رشوت نہ دینے والے قیدیوں کو مار پیٹ اور سختیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔
سینٹرل جیل میں 2400 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ تاہم روزانہ مختلف مقدمات میں گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں اور مقررہ وقت مکمل ہونے پر ملزمان کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس وقت سینٹرل جیل میں 6 ہزار سے زائد قیدی ہیں۔ جن میں ہائی پروفائل اور کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں سمیت خطرناک ملزمان بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق قیدیوں کو سینٹرل جیل میں قائم 50 سے زائد بیرکوں میں رکھا گیا ہے۔ قیدیوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہونے کے باعث ہر بیرک میں اوسطاً120 سے 150 قیدی رکھے گئے ہیں۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سینٹرل جیل میں چند بیرکوں کو وی آئی پی بنا رکھا ہے۔ جس میں کسی بھی قیدی کو منتقل کرنے کے الگ الگ ریٹ ہیں۔ ان بیرکوں میں رکھے جانے والے قیدیوں سے 50 ہزار سے 5 لاکھ روپے تک وصول کرکے انہیں دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ جیل میں بیرک نمبر 17 اور 18 بی کلاس اور وی آئی پی بیرکس کہلاتی ہیں۔ جن میں قیدی کو منتقل کرنے کیلئے 3 سے 5 لاکھ روپے تک وصول کئے جاتے ہیں اور قیدی کو وی آئی پی سہولت دی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ سبحان اللہ وارڈ کی بیرک نمبر 15 بھی وی آئی پی کہلاتی ہے۔ جہاں قیدی کو منتقل کرنے کیلئے ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے مقرر ہیں۔ عبدالرحیم وارڈ کی بیرک نمبر 40 اور 41 میں منتقلی کے 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے۔ جبکہ اسپتال وارڈ کی بیرک نمبر 10 کے ایک سے 2 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ ذرائع کے بقول قیدیوں سے وصولی کیلئے ٹاور انچارج احسان مہر کی ذمہ داری لگائی گئی ہے۔ جیل میں بااثر قیدیوں سے بھاری رشوت وصول کرکے انہیں وی آئی پی بیرکوں میں منتقل کرکے سہولیات دی جاتی ہیں۔ رشوت ادا کرنے والوں سے مشقت نہیں کرائی جاتی۔ سونے کیلئے اچھی جگہ، مکمل بستر، 2 سے 3 گھنٹے بیرک سے باہر نکلنے کی اجازت اور دیگر اشیا بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ سینٹرل جیل کے ہر وارڈ میں ایک ایک اہلکار کو بیٹ انچارج بناکر قیدیوں سے وصولی پر لگایا جاتا ہے۔ بیرک میں قیدیوں سے صفائی کے نام پر ہفتہ وار 100 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ ہر وارڈ میں تقریبا 5 بیرکیں قائم ہیں۔ جہاں فی بیرک 120 قیدی رکھے گئے ہیں۔ اس طرح ہر بیٹ انچارج صفائی کے نام پر 60 ہزار روپے ہفتہ جمع کرتا ہے اور پھر اسے ٹاور انچارج کے پاس جمع کرادیتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ جیل میں موجود حیدر وارڈ جسے فیکٹری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں سزا یافتہ قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ اس وارڈ میں 5 بیرکیں ہیں۔ سزا یافتہ قیدیوں سے بھی ہزاروں روپے رشوت وصول کی جاتی ہے۔ جس کے عوض انہیں بستر، کھانا پینا اوراچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ جبکہ رشوت نہ دینے والے قیدیوں کو گنجائش سے زائد بیرک میں بند کیا جاتا ہے اوران سے مشقت بھی کرائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایوب وارڈ کی بیرک نمبر 33,34 اور 35 کو صفائی پسند قیدیوں کیلیے مختص کیا گیا ہے۔ ان بیرکوں میں قیدیوں سے بیٹ انچارج 500 روپے فی کس ہفتہ وصول کرتا ہے۔ جس کے عوض قیدیوں کے لیے صفائی ستھرائی اور نہانے وغیرہ کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بیرکوں سے بیٹ انچارج کو 2 لاکھ روپے ہفتہ وصولی کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔ جو وصولی کے بعد ٹاور انچارج تک پہنچایا جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول سینٹرل جیل میں ہائی پروفائل قیدیوں کو بھی بھاری رشوت کے عوض سہولیات دی جاتی ہیں۔ جیل میں وہ قیدی بھی موجود ہیں جن پر درجنوں قتل اور دہشت گردی کے مقدمات درج ہیں۔ جیل میں موجود متحدہ دہشت گردوں رئیس مما، سعید بھرم، رحمن بھولا، زبیر چریا، لیاری گینگ گوار سربراہ عزیر بلوچ کے بھائی زبیر بلوچ، عامر مرچی، شاکر، غفار ماما سمیت کئی ہائی پروفائل قیدیوں کو ان کے مطابق سہولیات دی جاتی ہیں اور اس کے عوض بھاری رقم لی جاتی ہے۔ مذکورہ قیدیوں کو ان کے کہنے پر اسپتال کی بیرک میں بھی رکھا جاتا ہے۔ انہیں باہر سے من پسند کھانے بھی لاکر دیئے جاتے ہیں۔ مذکورہ ہائی پروفائل قیدیوں سے ڈیل ٹاور انچارج احسان مہر خود کرتا ہے۔
اہم ذرائع نے بتایا کہ سینٹرل جیل میں نئے داخل ہونے والے قیدیوں کو کراٹین نامی بیرک میں رکھ کر رشوت وصولی کی جارہی ہے۔ نئے قیدیوں کو پہلے کراٹین میں بند کیا جاتا ہے۔ کراٹین جیل میں بیرکوں سے ہٹ کر ایک سیل بنایا گیا ہے۔ رشوت دینے والے قیدی کو جلد ہی کراٹین سے نکال کر بیرک میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ جبکہ رشوت نہ دینے والوں کو کراٹین میں 15 روز بند رکھا جاتا ہے۔ کراٹین میں 35 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ تاہم اذیت دینے کیلیے بیک وقت 90 کے قریب قیدی رکھے جاتے ہیں اور انہیں کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ اس کے علاوہ کراٹین میں قیدیوں کو سونے نہیں دیا جاتا۔ انہیں اتنا ٹارچر کیا جاتا ہے کہ وہ اس عذاب سے نکلنے کییئے بھاری رشوت دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اس پورے عمل میں احسان مہر نے اپنی ایک ٹیم بنا رکھی ہے۔ جس میں جمیل بیٹر اور لیاقت نامی قیدیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ جو رشوت وصولی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ دونوں قیدی نئے قیدیوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ جبکہ رشوت ادا نہ کرنے والوں کو مار پیٹ و بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر کوئی قیدی اعلیٰ حکام سے شکایت کا کہتا ہے تو اسے بند وارڈ کر دیا جاتا ہے۔ جہاں نہ تو کھانا دیا جاتا ہے اور نہ سونے دیا جاتا ہے۔ قیدی کی جانب سے کھانے پینے کا تقاضہ کرنے پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق نئے قیدیوں سے ان کے مقدمات کی نوعیت کے مطابق 10 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک رشوت وصول کی جاتی ہے۔
اسی طرح ڈسٹرکٹ جیل ملیر میں بھی نئے قیدیوں سے رشوت وصول کی جاتی ہے۔ ملیر جیل میں ڈھائی ہزار سے زائد قیدی ہیں۔ جبکہ روزانہ مختلف مقدمات میں گرفتار ملزمان بھی جیل لائے جاتے ہیں۔ یومیہ اوسطاً 8 سے 10 نئے قیدی آتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق نئے قیدیو ں کو بیرک منتقل کرنے سے پہلے الگ رکھا جاتا ہے۔ جہاں ان سے مقدمات کی نوعیت کے حساب سے فی کس 10 ہزار سے 50 ہزار روپے تک رشوت لی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ رشوت نہ دینے والے قیدی کے اہلخانہ کو جیل بلا کر ان کے سامنے ان کے پیاروں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اہلخانہ پر دباؤ ڈال کر زبردستی رشوت وصول کی جاتی ہے۔ قیدی تشدد سے بچنے کیلیے بھاری رشوت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
ذرائع کے بقول سینٹرل اور ملیر جیلوں میں قیدیوں کی اہلخانہ سے ملاقات کرانے کے عوض بھی بھاری رشوت وصولی جاری ہے۔ رشوت دینے والوں کو بی کلاس روم اور ماڑی میں خصوصی ملاقات کرائی جاتی ہے۔ جبکہ رشوت ادا نہ کرنے پر گھنٹوں انتظار کرانے کے بعد جالی میں چند منٹ کیلئے ملنے دیا جاتا ہے۔ اہلخانہ کی جانب سے فراہم کردہ کھانے پینے سمیت دیگر اشیا پر بھی رشوت کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق سینٹرل جیل کراچی میں روزانہ کی بنیاد پران کے اہلخانہ آتے ہیں۔ سینٹرل جیل میں ملاقات کا عمل صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک جاری رہتا ہے۔ ملاقات کیلیے اہلخانہ سے پہلے فارم جمع کرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد نمبر کے حساب سے قیدیوں سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ملاقاتیوں سے رشوت وصولی کا سلسلہ دروازے سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ جیل میں داخل ہونے کیلئے اہلکاروں کی جانب سے سو روپے تک اور ڈیوٹی پر تعینات اہلکار ملاقاتیوں کے سامان کی تلاشی کے نام پر فی تھیلا 50 روپے۔ اس کے بعد جیل میں ملاقات فارم کے 50 روپے فی قیدی کے حساب سے وصول کئے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جیل میں قیدیوں سے ملاقات کیلیے آنے والے اہلخانہ سے 2 ہزار روپے تک دینے پر ماڑی میں ملاقات کرائی جاتی ہے۔ ماڑی کے ساتھ بی کلاس روم بنایا گیا ہے۔ جہاں اکثر بی کلاس حاصل کرنے والے قیدیوں کی ان کے اہلخانہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ تاہم عام قیدی کے اہلخانہ سے 5 ہزار روپے تک رشوت وصول کرکے انہیں بی کلاس روم میں ملاقات کرادی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ مذکورہ اہلخانہ جتنی دیر ملاقات کرنا چاہے تنگ نہیں کیا جاتا۔ رشوت نہ دینے والے اہلخانہ کو ان کے پیاروں سے اس روم میں ملاقات کرائی جاتی ہے جہاں فریقین کے درمیان شیشے کی دیوار بنی ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے بات انٹر کام کے ذریعے ہوپاتی ہے۔ اس کے علاوہ رشوت نہ دینے پر پہلے گھنٹوں انتظار کرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد چند منٹ کی ملاقات کراکے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ دھندا بھی ٹاور انچارج احسان مہر چلا رہا ہے۔
اہم ذرائع نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ جیل ملیر میں روزانہ کی بنیاد پر 90 سے زائد عام قیدیوں اور 10 سے 12 بی کلاس حاصل کرنے والے قیدیوں کے اہلخانہ ملاقات کیلئے آتے ہیں۔ ملیر جیل میں بھی ماڑی اور بی کلاس روم میں رشوت وصول کی جاتی ہے۔ ملاقاتوں پر رشوت وصولی جیل میں تعینات اہلکار عبدالعزیز کرتا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ ملاقات کے موقع پر اہلخانہ کی جانب سے کھانے پینے سمیت دیگر اشیا پر بھی ڈیوٹی پر تعینات اہلکار 200 سے 500 روپے تک وصول کرتے ہیں۔ اگر کوئی اہلخانہ کسی قیدی کو جیل سے ضروری اشیا خریدنے کیلئے پیسے دیتے ہیں تو اہلکار اس میں سے بھی کٹوتی کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے ماتحت عدالتوں میں پیشی پر آئے قیدیوں سے بات کی تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جیلوں میں ان سے مختلف مد میں رشوت طلب کی جاتی ہے۔ پیشی پر آنے سے لیکر واپس جیل منتقلی تک رشوت لی جاتی ہے۔ ہتھکڑیاں پہناتے وقت بھی مختلف مد میں پیسے لیے جاتے ہیں۔ ہتھکڑی تھوڑی ڈھیلی رکھنے کیلئے 200 روپے۔ 2 سے 3 قیدیوں کو ایک چین میں باندھنے کیلیے 300 سے 400 روپے لیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی قیدی اکیلا ہتھکڑی میں جانا چاہے تو اس سے ہزار روپے رشوت لی جاتی ہے۔
قیدیوں کا مزید کہنا تھا کہ ان سے بستر وغیرہ کیلیے بھی رشوت طلب کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پیشی کے وقت اہلخانہ کی جانب سے فراہم کردہ کھانے پینے کے سامان کو اپنے ساتھ لے جانے کیلیے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔ جیل میں اہلخانہ ملنے آتے ہیں تو انہیں پہلے اہلکاروں کو پیسے دینا پڑتے ہیں۔ اس کے بعد ہی ملنے دیا جاتا ہے۔ پیسے دینے پر اہلخانہ سے ملاقات ماڑی میں کرائی جاتی ہے اور وقت بھی اچھا ملتا ہے۔ لیکن اگر پیسے نہ دیں تو جالی سے ملاقات کرادی جاتی ہے۔ قیدیوں کا کہنا تھا کہ پیسوں کی وجہ سے اکثر ان کے اہلخانہ جیل میں ملاقات کیلئے نہیں آتے۔ بلکہ جب انہیں عدالتوں میں پیشی کیلیے لایا جاتا ہے تو وہ یہاں آکر ان سے ملاقات کرتے ہیں۔
’’امت‘‘ نے موقف جاننے کیلیے ملیر جیل کے سپرنٹنڈنٹ ارشد شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے رشوت وصولی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’کچھ لوگ اپنے مقاصد پورے کرنے کیلیے جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ جیل میں ہر ہفتے ججز اور پولیس کے اعلیٰ حکام دورے بھی کرتے ہیں۔ اگر رشوت جیسی کوئی چیز ہوتی تو ججزاور پولیس کے اعلیٰ حکام کے سامنے آجاتی۔ یہ روایت پہلے سے چلتی آرہی ہے کہ کچھ لوگ سازش کرنے کیلیے ایسی افواہ اڑاتے ہیں۔ جیل میں 6 ہزار سے زائد قیدی ہیں اور جیل کا اچھا نظام چل رہا ہے‘‘۔ سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ محمد حسن سہتو سے رابطہ کرنے کی متعدد بار کوشش کی گئی۔ تاہم ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔ ان کا موقف موصول ہونے پر من و عن شائع کر دیا جائے گا۔