امت رپورٹُ:
وفاقی حکومت آڈیو لیکس کی تحقیقات سے زیادہ سائفر سازش کی انکوائری میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف آئین کی مختلف شقوں اور آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت کارروئی پر حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیاں ایک پیج پر ہیں۔ جبکہ بنی گالہ پر چھاپے کے حوالے سے بھی حکومت غور کر رہی ہے۔ لیکن اس معاملے پر تاحال حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے۔
واضح رہے کہ جمعہ کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سفارتی سائفر کی کاپی وزیر اعظم ہاؤس کے ریکارڈ سے غائب ہے۔ جس پر اجلاس کے شرکا نے اس ’’چوری‘‘ کو سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے کابینہ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی جو سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق پرنسپل سیکریٹری اور سابق سینئر وزرا کے خلاف قانونی کارروائی کا تعین کرے گی۔ اسی طرح اعلامیہ میں سفارتی سائفر کو سیاسی مفادات کی خاطر من گھڑت معنی دینے کو آئینی حلف اور خاص طور پر آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی سنگین خلاف وزری قرار دیا گیا۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت تقریبا تمام اتحادی پارٹیوں کے مابین اس پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اس بار سائفر کے معاملے پر سابق وزیراعظم کو بچ نکلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لہذا تاخیر کے بجائے جلد از جلد قانونی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے صلاح و مشورے جاری ہیں۔ اور بنیادی ٹاسک وزارت قانون کو دیا گیا ہے۔ تاہم مجوزہ قانونی کارروائی کے لئے نون لیگ کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ساتھ دیگر اتحادی پارٹیوں کے قانونی ماہرین بھی آئین کی مختلف شقوں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں کہ سائفر سازش کے کرداروں کے خلاف کون سی شقیں بروئے کار لائی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے ایک آئین کا آرٹیکل 5 بھی ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ اسی شق کو استعمال کرکے پی ٹی آئی نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد روکنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
اپریل میں جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی تو وزیر قانون فواد چوہدری نے آئین کا آرٹیکل 5 پڑھ کر سنایا اور اپوزیشن پر ریاست سے بے وفائی کا الزام لگایا تھا۔ جس پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد چونکہ بیرونی مداخلت یا سازش کی وجہ سے لائی جارہی ہے، لہذا یہ آرٹیکل 5 سے ’’متصادم‘‘ ہے۔ یہ کہہ کر قاسم سوری نے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں سپریم کورٹ نے نا صرف تحریک عدم اعتماد کے عمل کو یقینی بنایا، بلکہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو بھی غیر آئینی قرار دیدیا تھا۔ مطلب یہ کہ پی ٹی آئی نے ایک جمہوری عمل، تحریک عدم اعتماد کا راستہ آرٹیکل 5 کی غلط اور من مانی تشریح سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق سائفر سازش کو لے کر اب وفاقی حکومت آئین کی جن مختلف شقوں کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف بروئے کار لانا چاہتی ہے، ان میں سے ایک ممکنہ طور پر وہی آرٹیکل 5 ہے۔ آئین کا آرٹیکل 5 (1) کہتاہے کہ ’’مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔‘‘
ایک نون لیگی رکن اسمبلی کے بقول حکومت اور اتحادی پارٹیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ عمران خان نے ایک سفارتی سائفر کو لے کر اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر ایک جھوٹا بیانیہ گھڑا اور ملکی مفادات کو داؤ پر لگا دیا ، جو آئین کے آرٹیکل 5 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جس میں واضح طور پر مملکت سے وفاداری، ہر شہری کا بنیادی فرض قرار دیا گیا ہے۔ نون لیگی رکن اسمبلی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سفارتی سائفر کے معاملے کو پبلک کرکے سابق وزیر اعظم عمران خان چونکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوئے ہیں، تو حکومت نے ان کے خلاف اس ایکٹ کے تحت بھی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب کو چودہ برس تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ئ، پاکستان میں سرکاری رازوں سے متعلق قوانین کو مضبوط کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے پاس موجود معلومات کو کسی غیر ملکی طاقت کے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے یا کسی دوسرے طریقے سے ریاست کے تحفظ کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، تو اس جرم پر قانونی چارہ جوئی کے لیے اسے ایک مدت کے لیے قید کی سزا دی جا سکتی ہے، جس میں چودہ سال تک توسیع ہو سکتی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے کہ عمران خان ایک عرصے سے کلاسیفائیڈ معلومات اور حقائق کو توڑ مروڑ کر ریاستی اداروں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اور پھر یہ کہ اب سفارتی سائفر کی کاپی بھی مبینہ طور پر وزیراعظم ہائوس سے غائب ہے۔ ان ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس سے ’’چوری‘‘ کی گئی سفارتی سائفر کی کاپی کی برآمدگی کے لئے عمران خان کی رہائش گاہ پر چھاپے سے متعلق سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے۔ یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی زیر بحث آیا۔ تاہم اس پر تاحال حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ کیونکہ اس معاملے پر نون لیگ کے اندر بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ احسن اقبال اور مریم نواز سمیت بعض دیگر رہنمائوں کا خیال ہے کہ سائفر کی تلاش میں بنی گالہ کی تلاشی ضروری ہے۔ اس کا اظہار ہفتے کے روز پریس کانفرنس کے موقع پر مریم نواز نے بھی کیا۔ تاہم پارٹی کے اعتدال پسند رہنما سمجھتے ہیں کہ بنی گالہ پر چھاپہ درست اقدام نہیں ہوگا۔ ذرائع کے بقول اس بارے میں جلد حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر اور سینئر نون لیگی رہنما احسن اقبال بھی اس نوعیت کی کارروائی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’سفارتی سائفر کی ایک کاپی وزارت خارجہ اور دوسری وزیراعظم آفس کے لئے تھی۔ تاہم وزیراعظم آفس سے کاپی غائب ہے۔ یہ اتنا سنگین جرم ہے کہ حال ہی میں ایف بی آئی نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے گھر کی تلاشی لی تھی۔ کیونکہ ٹرمپ کے خلاف بھی یہی شکایات تھیں کہ وہ وائٹ ہاؤس سے کچھ اہم دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اب وزیراعظم کے دفتر سے بھی ایک اہم دستاویز غائب ہے۔‘‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر بنی گالہ پر چھاپے کا حتمی فیصلہ ہوجاتا ہے اور وہاں سے سائفر کی کاپی برآمد کرلی جاتی ہے یا پھر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ کاپی ادھر ادھر کردی گئی ہے تو پھر مقدمے کے اندراج کے ساتھ عمران خان کی گرفتاری بھی خارج از امکان نہیں۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کی تمام تر توجہ اس وقت سائفر سازش کے معاملے پر ہے۔ تاہم آڈیو لیکس کے پس پردہ کرداروں کو بے نقاب کرنے میں حکومت کی دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ حالانکہ قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں بھی وزیراعظم ہائوس سے لیک ہونے والی آڈیوز کے معاملے کا جائزہ لیا گیا تھا۔ بعد ازاں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کے آڈیو لیکس سے متعلق فیصلوں کی توثیق کی گئی تھی اور کابینہ نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ تاہم ہفتے کی شام اس رپورٹ کے فائل ہونے تک اس اعلان کردہ کمیٹی کا نوٹی فیکشن جاری نہیں کیا جا سکا تھا۔ اسلام آباد میں موجود ذرائع نے ’’امت‘‘ کو یہ بھی بتایا کہ وزیراعظم ہائوس سے آڈیو لیکس کے معاملے کی تحقیقات کے لئے سب سے اہم رول ایف آئی اے کے سائبر کرام ڈیپارٹمنٹ کا بنتا ہے۔ لیکن اب تک اس معاملے پر ایف آئی اے کو حکومت کی جانب سے کسی قسم کی ہدایات موصول نہیں آئی ہوئی ہیں۔ ایف آئی اے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر کے ایک ذریعے نے تصدیق کی کہ سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ کو تاحال اس سلسلے میں حکومتی احکامات کا انتظار ہے۔