محمد نوازطاہر:
پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے اور سابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل چوہدری مونس الٰہی کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی تحقیقات کی روشنی میں قائم منی لانڈرنگ کے مقدمہ میں ضمانت کی منسوخی کی درخواست تیار کی جارہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ درخواست ایک دو روز میں عدالتِ عالیہ میں دائر کیے جانے کا امکان ہے۔ جبکہ یہ ضمانت بینکنگ کے جرائم کے معاملات نمٹانے والی عدالت نے ہی منظور کی ہے جس نے مکمل چالان پیش کیے جانے پر مونس الٰہی سمیت تمام ملزموں کو طلب کرلیا ہے۔ بے نامی کھاتے داروں میں برطانیہ کی آف شور کمپنی سالویاتی انویسٹمنٹ لمیٹیڈ بھی شامل رہی۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الٰہی کے خلاف ان تحقیقات کا آغاز پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت پر شروع ہوا تھا اور مقدمہ بھی اسی دور میں ہی درج کیا گیا۔ تاہم چالان اب مکمل ہوا ہے اور اکتیس صفحات پر متمل یہ چالان عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس مقدمے کے بعد ہی مونس الٰہی کو عمران خان نے اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا۔
اس مقدمے میں سیکریٹری پنجاب اسمبلی (موجودہ پرنسپل سیکریٹری ٹوچیف منسٹر) کے بھتیجے نواز بھٹی (درجہ دوئم میں محکمہ صحت کے چپراسی ) ، واجد بھٹی نائب قاصد اور مظہر عباس (سترہویں گریڈ میں اسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ ) بھی نامزد ملزم ہیں۔
عدالت میں جمع کروائے جانے والے چالان کے مطابق عمران خان کے دورِ حکومت میں شوگر اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران جب رحیم یار خان ملز کے معاملات کی چھان بین کی گئی تو اس میں حیران کن حقائق سامنے آئے۔ جن کے مطابق رحیم یار خان شوگر ملز میں توسیع بھی دو ہزار سات میں چودہری پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں پابندی کے باوجود کی گئی تھی۔ اس ملز میں چھیاسٹھ فیصد شیئرز چودھری مونس الٰہی نے حاصل کیے اور یہ تمام شیئرز بے نامی دار وں کے نام پر حاصل کیے گئے۔ ان کی تفصیلات ریکارڈ کی پڑتال کے دوران بینک کے کھاتوں سے حاصل کی گئیں۔
چالان کی دستاویزات کے مطابق رحیم یار خان شوگر ملز میں نامی دار نواز بھٹی 31 فیصد اور مظہر عباس نے 35 فیصد شئیر خریدے۔ حالانکہ اصل مالک مونس الٰہی ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق محکمہ صحت کے درجہ دوئم کے ملازم نواز بھٹی چپراسی کے مختلف بینکوں میں بتیس اکائونٹس میں سے تقریبا چوبیس ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوئیں۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے چپڑاسی قیصر اقبال بھٹی کے اکاونٹ سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن کاریکارڈ بھی دریافت ہوا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق ستائیس فروری سنہ دو ہزار بائیس تک رحیم یار خان شوگر ملز کے پچاس اعشاریہ پانچ صفر فیصد شیئر مونس الٰہی خاندان نے خرید لئے تھے۔ شیئرز کی خریداری میں مونس الٰہی کی ساس مہ رخ جہانگیر بھی اس وقت شامل ہوئیں۔ جبکہ ان کا پاکستان میں کوئی اثاثہ نہیں تھا اور ان کا آمدنی کا ذریعہ تنخواہ لکھا گیا ہے اور انہوں نے سنہ دو ہزار سترہ میں ایک کروڑ تینتیس لاکھ روپے کے مالیت کے شیئرز خریدے ۔ اس کی رقم برطانیہ کی آف شور کمپنی سالویاتی انویسٹمنٹ لمیٹڈ سے منتقل کی گئی اور بعد یہی شیئرز انہوں نے اپنی بیٹی اور مونس الٰہی کی اہلیہ تحریم الٰہی کو منتقل کردیئے۔
دستاویزات کے مطابق اسکریپ ڈیلر اعوا ن خاندان کی خواتین سمیت مجموعی طور پر 9 بے نامی دار استعمال ہوئے جن سے ایف آئی اے نے تحقیقات کیں۔ ان تحقیقات کے مطابق اسکریپ ڈیلر رضا اعوان کے خاندان کی خواتین نے بھی شیئرز خریدے ۔ ان میں سے ارم امین اسکریپ ڈیلر ایم رضا اعوان کے بھائی کی اہلیہ، ناصرہ رحمان حقیقی بہن بھی شامل ہیں۔ اسکریپ ڈیلر رضا اعوان کی بہن ناصرہ رحمان نے مظہر عباس سے سنہ دو ہزار گیارہ میں ساڑھے پچپن لاکھ اور نواز بھٹی سے ساڑھے پچپن لاکھ کے شیئرز خریدے جو اپنی رشتے دار ارم امین کو منتقل کردیے۔ ناصرہ اقبال کے بارے میں ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ گارمنٹس کی ہول سیل ڈیلرزاورگاڑیوں کی مرمت کا کام کرتی ہیں۔ ساجدہ اقبال ساجدہ کاٹج کرنز کی ہول سیلر ڈیلراورموٹرسائیکل کی مرمت کا کاروبار کرتی ہیں۔ارشد اقبال کے کاروبار اور ذرائع آمدنی ظاہر نہیں کیے گئے، تاہم یہ بتایا گیا کہ اس کا مونس الٰہی سے قریبی تعلق ہے۔ اسی طرح ایک کھاتے دار منیر حسین کے ذرائع آمدنی بھی کہیں ظاہر نہیں کیے گئے۔ ان سبھی نے تمام شیئرز باہم خریدے اور منتقل کیے۔
ایف آئی اے کی دستاویزات کے مطابق کوئی کوئی بھی خریدار اپنے ذرائع آمدنی کے بارے میں یا یو اے ای س سمیت کسی دوسرے مقام سے رقوم کی منتقلی کے بارے میں ثبوت فراہم نہین کرسکا۔ جبکہ کچھ ایک بڑی رقم مونس الہی کے زیر کنٹرول کیس کیڈ کمپنی کو بھی منتقل کی گئی۔ دستاویزات کے مطابق جب رحیم یار خان شوگر ملز کے معاملات کی پڑتال کی گئی اور ریکارڈ سامنے آیا تو یہ یہ بات اہم تھی کہ محکمہ صحت کا درجہ دوئم کا ملازم اور ایک نائب کیسے لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کرسکتا ہے، جب ان سے تحقیقات کی گئیں تو وہ اپنی آمدنی اور استعمال ہونے والی رقوم کے ذرائع بیان نہیں کرسکے۔ اسی دوران مختلف بینکوں کے کھاتوں کی پڑتال کی گئی تو مونس الٰہی کے ساتھی ملزموں کے دستخط اور دیگر دستاویزات میں بھی فرق اور بوگس پن پایا گیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ ان تمام افراد نے مونس الٰہی کے لئے سہولت کاری کا کام کیا اور اس مقصد کیلئے بیالیس بینک اکائونٹس استعمال کے گئے۔ بینک کے چالان میں خواتین سمیت دیگر افراد کے بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں ۔
اب اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوگئی ہے اورعدالت نے گیارہ اکتوبر کو تمام ملزموں کو طلب کرلیا ہے۔ جبکہ مونس الٰہی کی ضمانت کی منسوخی کیلیے اقدامات بھی شروع کردیے گئے ہیں۔