احمد خلیل جازم:
ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں بد کاری، ہراسگی، بلیک میلنگ اور منشیات فروشی سمیت دیگر جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ یہ انکشاف انٹیلی جنس سینٹر (PIC) ہوم ڈپارٹمنٹ پنجاب نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ متذکرہ رپورٹ تیس ستمبر2022ء کو انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب کو بھجوائی جا چکی ہے۔ اس کی کاپی وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت ایڈیشنل سیکریٹری(L&O) وزیر اعلیٰ آفس اور پی ایس ٹو ایڈیشنل سیکرٹری پنجاب کو بھی ارسال کی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ اس مسئلے کا فوری سدباب کیا جائے۔
واضح رہے کہ اٹک جیل تاریخی اہمیت کا حامل زنداں ہے۔ یہ جیل 1905-06ء میں بنائی گئی۔ پہلے اس کی گنجائش 450 قیدی تھے۔ اب نئی عمارت کے بننے کے بعد ایک ہزار کے لگ بھگ قیدیوں کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ یہاں متعدد اہم شخصیات نے جن میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف بھی شامل ہیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ذرائع کے مطابق حالیہ سپرنٹنڈنٹ جیل فرخ رشید اپنے موجودہ سکیل (17) کے مطابق عارضی ذمہ داری تو لے سکتے ہیں۔ لیکن مستقل طور پر ابھی کسی سپرنٹنڈنٹ جیل کی ذمے داری لینے کے اہل نہیں ۔ ایسا صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے اگر گریڈ اٹھارہ کا سپرنٹنڈنٹ دستیاب نہ ہو۔ ادھر صرف ہیڈ آفس لاہور میں سات عدد سپرنٹنڈنٹ جیل، محکمہ جیل خانہ جات نے یونہی بٹھا رکھے ہیں۔ لیکن ذرائع کے بقول، کرپشن اور اوپر تک مال پہنچانے کے لیے فرخ رشید ہی کو جیل سپرنٹنڈنٹ رکھا گیا ہے۔ جو گزشتہ چند برسوں سے اٹک جیل میں تعینات ہیں۔ اٹک جیل میں اس قدر کرپشن بڑھ چکی ہے کہ وہی جیلیں جو جرائم پیشہ افراد کے سدھارنے کی قیام گاہیں تھیں۔ اب جرائم کو مزید بڑھاوا دینے اور جرائم کے نت نئے طریقے سکھانے پر مامور ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر انٹیلی جنس سینٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل میں جرائم کے لحاظ سے ملاقات کے دن مقرر ہیں۔ تاہم 500 روپے سے 2000 روپے کے درمیان ملاقاتیوں کی مالی حیثیت کے مطابق رشوت لے کر بغیر مقررہ دن کے بھی ملاقات کرادی جاتی ہے۔ 10000 روپے لے کر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں ملاقات کرا دی جاتی ہے اور یہ سہولت کوئی بھی صاحب حیثیت قیدی حاصل کرسکتا ہے۔ جیل میں عام قیدیوں کو مینو کے مطابق کھانا دیا جاتا ہے۔ تاہم ایک ہزار روپے میں اپنی پسند کا ناشتہ اور 5000 روپے میں چکن کڑاہی اور 10000 روپے میں مٹن، شنواری ریسٹورنٹ اور بٹ ہوٹل اٹک شہر سے لا کر مہیا کی جاتی ہے۔ یہ عمومی ریٹ سے کہیں زیادہ ہے اور ظاہر ہے بقایا رقم رشوت کی مد میں وصول کی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک بدترین مثال قیدی ولید کی ہے جو منشیات کے کیس میں سات برس کی سزا بھگت رہا ہے۔ وارڈر نعیم اور وارڈر گل فراز اس سے پچاس ہزار روپے ماہانہ رشوت لے کر افسران بالا تک پہنچاتے ہیں۔ جس کے بدلے ولید کو قیدیوں کے مخصوص لباس سے آزادی حاصل ہے اور وہ عام گھر کے کپڑے پہنتا ہے۔ کمرے میں روم کولر کی سہولت بھی ہے۔ عام قیدی ہفتے میں ایک بار فون پر گھر بات کرسکتا ہے۔ لیکن ولید کو تین بار بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل میں مچھلی لانا منع ہے۔ لیکن وہ جب چاہے مچھلی منگوا سکتا ہے۔
دوسرا قیدی راولپنڈی کا راجہ وقاص (سابق ملازم پولیس) ہے جو دفعہ 302 کے تحت قید ہے۔ وہ امجد قاچو وارڈر کے ذریعے افسران بالاکو 30000 روپے ہزار ماہانہ دے کر مطلوبہ سہولیات لے رہا ہے۔ جو قیدی چھ سے سات ہزار ماہانہ نہ دے۔ اسے آوارہ گردی کا الزام لگا کر الگ تھلگ بند کردیتے ہیں۔ پھر مطلوبہ رقم دے تو چاہے ساری جیل پھرتا رہے کوئی منع نہیں۔ ادویات کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی قیدی بیمار ہو تو اسے صرف ایماکسل کیپسول، پیراسٹامول اور پیناڈول کی گولیاں دے دی جاتی ہیں۔ دیگر کسی دوا کی ضرورت ہو تو ڈاکٹر کی پرچی پر باہر سے منگوائی جاتی ہے۔ غریب حوالاتی یا قیدی بیماری میں عموماً دوا سے محروم رہتے ہیں۔ لنگر خانے میں 100 قیدی مشقت پر تعینات ہیں۔ جن میں سے 70 کے قریب ایسے قیدی ہیں جو 5000 روپے ماہانہ دے کر بالکل مشقت نہیں کرتے اور غریب قیدیوں کو ان کی جگہ کئی گنا زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے۔ ضمیر شاہ نامی ایمان دار وارڈر کو لنگر انچارج لگایا گیا تو وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کے سامنے پیش ہوکر بولا کہ میں رشوت نہیں لے سکتا۔ مجھے تبدیل کیا جائے۔ چنانچہ اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈسٹرکٹ جیل اٹک میںکھلے عام منشیات فروخت ہوتی ہے۔
سردار ریاست نامی قیدی سے ملاقات کے لیے ایک لڑکی آتی ہے، جو منشیات لے کرآتی ہے۔ منشیات فروشوں میں بڑے نام سلمان ولد محمد سلیم سکنہ مانسر، حضرو ضلع اٹک اور ممتاز خان ولد انور خان سکنہ چرگھوڑی مانسر تحصیل حضرو اٹک ہیں۔ جیل میں فروخت ہونے والی 500 روپے کی چرس یا گردا، جیل کے اندر 3000 سے 3500 روپے میں ملتا ہے۔ اسی طرح ایک گرام آئس کا بھی یہی ریٹ ہے۔ سلمان ولد محمد سلیم پر 14 کیس ہیں اور ممتاز خان ولد انور خان پر آٹھ کیس درج ہیں۔
انٹیلی جنس رپورٹ میں منشیات فروشی کی مزید تفصیلات بھی درج ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی لکھا ہے کہ جیل ہذا میں سپرنٹنڈنٹ جیل فرخ رشید اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل افضال احمد وڑائچ رشوت لینے میں ملوث ہیں۔ جبکہ جیل کے وارڈرز میں نعیم، طارق سعید، وحید ماڑی والا، امجد ہیڈ وارڈر، اظہر موٹا، گلفراز، نگاہ اور شفقت وارڈرز براہ راست رشوت لیتے ہیں۔ جبکہ امدادی چکر میں یحییٰ خان رشوت ستانی سے متعلق دیگر معاملات طے کرتا ہے۔ جنسی ہراسگی کے حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹ میں بہت خوفناک انکشافات کیے گئے ہیں۔ اس کی صرف اگر چہ ایک مثال دی گئی ہے۔ لیکن اسی سے واضح ہوتا ہے کہ جیل کے اندر کیا کیا کچھ ہوتا ہوگا۔
رپورٹ کہتی ہے کہ ’’جیل میں قید حوالاتیوں کے گھر کی خواتین جو ان سے ملاقات کے لیے جیل آتی ہیں۔ ان سے سورس کے مطابق جنسی ہراسگی اور زنا کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ اس کی واضح مثال نصیر ساکن موضع جابہ ضلع اٹک کی بیوی ہے۔ جسے عابد وارڈر نے بدکاری کے لیے مجبور کیا اور اسے تسلی دی کہ تمہاری ملاقات بھی کرائوں گا اور تمہارے شوہر کو اندر 5000 روپے بھی پہنچا دوں گا۔ کچھ عرصہ عابد اس کے ساتھ زنا کرتا رہا۔ پھر ایک دن عابد نے اس کی نا زیبا ویڈیو بنالی اور وہ ویڈیو دکھا کر اسے بلیک میل کیا کہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر مجھ سے شادی کرو۔ اس عورت نے دوران ملاقات اپنے شوہر کو تمام بات بتاکر اس سے طلاق لے کر عابد وارڈر سے شادی کرلی۔ قیدی نصیر کے ماں باپ اور بہن بھائی اس سارے واقعے کی تصدیق کرسکتے ہیں‘‘۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’جیل ہذا کے اندر جانے سے پہلے موبائل فونز تک باہر رکھوا لیے جاتے ہیں اور کسی قسم کی ریکارڈنگ ڈیوائس اندر لے جانا ناممکن ہے۔ لہٰذا بالاتمام ناجوازیوں، جرائم اور رشوت ستانی کا کسی قسم کا ثبوت حاصل کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیل کا عملہ بلا خوف و خطر دونوں ہاتھوں سے رشوت بٹور رہا ہے۔ جرائم ان کی نگرانی میں ہو رہے ہیں اور کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کسی قسم کی قانونی کارروائی کا خوف نہیں ہے‘‘۔
انٹیلی جنس ادارے نے تو اپنے ذرائع اور سورس سے اندر کی خبریں نکال کر جیل خانہ جات کے افسران بالا کے سامنے رکھ دی ہیں۔ لیکن یہاں بھی چند چھوٹے ملازمین کو قربانی کا بکرا بنا کر ’’سب اچھا‘‘ کہہ کر سب کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اس رپورٹ میں واضح کہا گیا ہے کہ ’’ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معاملات کو جانچنے کے لیے ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں اچھی شہرت کے افسران کو مقرر کیا جائے۔ جنہیں ایمان دار شہرت رکھنے والا ہیڈ کرے اور وہ کم از کم ایڈیشنل سیکریٹری کے لیول کا ہو۔ یہ انکوائری محکمہ جیل خانہ جات کے علاوہ ہوم ڈپارٹمنٹ یا کوئی دوسرے محکمے کے کسی افسران کے ہاتھ میں دی جائے۔ تاکہ ان قبیح جرائم کا خاتمہ کیا جاسکے‘‘۔
اس رپورٹ کی بابت ’’امت‘‘ نے جب اپنے ذرائع سے معلوم کیا تو نہ صرف ان باتوں کی سو فیصد تصدیق کی گئی۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی بتایاگیا کہ اٹک میں خالد نامی ایک شخص نے سپرنٹنڈنٹ جیل فرخ رشید کے خلاف محکمہ انٹی کرپشن میں درخواست دے رکھی ہے۔ پہلے پنڈی میں ڈپٹی ڈائریکٹر نہ ہونے کی وجہ سے صہیب حسن ڈپٹی ڈائریکٹر انٹی کرپشن چکوال کو مارک کی گئی۔ انہوں نے دو بار فرخ رشید کو بلوایا لیکن وہ پیش نہ ہوا۔ پھر کچھ دے دلا کر معاملہ ٹھنڈا کیا گیا۔ اسی دوران پنڈی میں ڈپٹی ڈائریکٹر اصغر چوہدری تعینات ہوگیا۔ یہ شخص انتہائی ایمان دار تھا۔ اس نے دو پیشیوں پر جیل عمارت میں ناقص مٹیریل کی جانچ کے لیے لیبارٹری ٹیم کی تیاری کا حکم دیا۔ لیکن پھر یکدم چانڈیو سے کیس لے کر ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کو کیس دے دیا گیا ہے جو ابھی تک سرد خانے میں پڑا ہے۔