سید نبیل اختر:
کراچی کے صنعتی علاقوں میں پانی کی فراہمی کے نام پر کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے والے واٹر بورڈ کے افسران کارروائی سے محفوظ ہیں۔ ڈیڑھ برس قبل میٹر کنزیومر سیل سمیت ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے خلاف شروع ہونے والی نیب تحقیقات بھی سرد خانے کی نذر ہوگئی۔ کراچی کے صنعتی علاقوں سے 80 فیصد میٹرز خراب قرار دے کر نکالے جاچکے ہیں۔ من پسند کنزیومر سے ملی بھگت کر کے خزانے کو ماہانہ کروڑوں روپے کا چونا لگایا جارہا ہے۔ میٹر کنزیومر سیل نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ایوریج بلنگ کرنا شروع کردی ۔ ادارے میں جاری کرپشن روکنا نئی انتظامیہ کیلیے چیلنج ہے۔
نیب نے ڈیڑھ برس قبل واٹربورڈ کے کرپٹ افسران کے خلاف تحقیقات شروع تو کی۔ لیکن اس تحقیقات میں تمام ریکارڈ جمع کرنے کے بعد اس تحقیقات کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا۔ شروع ہونے والی انکوائری کا مقصد خزانے کو پہنچنے والے کروڑوں روپے کے نقصان کی روک تھام کے ساتھ ساتھ واٹر بورڈ میں موجود کرپٹ افسران و ملازمین کے خلاف کارروائی کی سفارش کرنا تھا۔ انکوائری میں کرپشن کی نشاندہی کے باوجود کرپٹ افسران کو بچانے کیلئے انتظامی سطح پر اقدامات کئے گئے اور ایک اعلیٰ ترین افسر نے اپنے رسوخ کی بنا پر انکوائری افسر سے ملی بھگت کر کے انکوائری دبادی۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ یہ ایک ایسی انکوائری تھی جس میں تمام شواہد واٹر بورڈ افسران کے خلاف تھے۔ واٹر بورڈ حکام نے جو تفصیلات نیب کو فراہم کی تھیں۔ ان پر بھی ریفرنس بن سکتا تھا۔ تاہم انکوائری بند کردی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ نیب نے انڈسٹریز کو میٹر کے بغیر بل بھجوانے والے افسران کو ان کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے احکامات تک دے دیئے تھے۔ نیب ریفرنس بنتا دیکھ کر افسران میں کھلبلی مچی۔ نیب نے بڑی صنعتوں کو کی جانے والی بلنگ اور کنزمپشن کے ریکارڈ سے شواہد بھی تیار کرلئے تھے۔ افسران سے ریکارڈ فراہمی پر سوالات بھی کیے گئے تھے، کہ کنکشن سینکشن کیے تو میٹر کیوں نہیں لگایا؟ ایوریج بلنگ کیوں کی گئی؟ قواعد کے مطابق کنکشن کیوں نہ کاٹے گئے؟ تاہم حیرت انگیز طور پر آر آر جی شعبے کے افسران نے کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی اینٹی تھیفٹ سیل کو کنکشن منقطع کرنے کا ایک خط بھی نہیں بھیجا۔
معلوم ہوا کہ نیب نے سابق ایم ڈی واٹر بورڈ اور موجودہ چیف آپریٹنگ افسر اسداللہ خان سے صنعتی ایریاز میں پانی فراہمی کے لیے جاری کنکشن منظوری اور ایوریج بلنگ کا ریکارڈ مانگا۔ واٹر بورڈ انتظامیہ کو بن قاسم، لانڈھی، کورنگی، سائٹ ایریا، سائٹ سپر ہائی وے فیز ون و ٹو سمیت شہر کے چھوٹے بڑے تمام انڈسٹریل ایریاز اور بلک لائنوں کو جاری کنکشن، میٹرز کی ریڈنگز، میٹر نہ لگنے کی وجوہات اور ایوریج بلنگ کی تمام تفصیلات فراہم کرنے کے احکامات دیئے گئے تھے۔
نیب نے صنعتی ایریاز میں میٹرز لگائے بغیر ایوریج بلنگ سے ماہانہ کروڑوں روپے کا سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے پر تحقیقات شروع کیں تو کنزمپشن کم کرنے، میٹر خراب کرکے ایوریج بل کرنے والے افسران نے تحقیقات رکوانے کے لیے کوششیں تیز کردیں اور وہ بالآخر اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ نیب تحقیقات کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عمیر احمد کی جانب سے اس وقت کے ایم ڈی واٹر بورڈ اسداللہ خان کو ایک مکتوب No.NABK2017060994487/W-II/CO-B/NAB(K)/2020/1590 بھیجا گیا۔ مکتوب واٹر بورڈ کے ہائیڈرنٹ سیل اور دیگر شعبہ جات کے افسران کے خلاف انکوائری کے عنوان سے تھا۔ مکتوب میں کہا گیا کہ مجاز اتھارٹی کی جانب سے واٹر بورڈ کے افسران کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کرنے اور غیر قانونی اقدامات پر انکوائری شروع کی گئی ہے۔ چونکہ آپ (ایم ڈی) واٹربورڈ ہیں اور تمام دستاویزات اور ریکارڈ کے کسٹوڈین ہیں۔ اس لیے بن قاسم، لانڈھی، کورنگی، سائٹ ایریا، سائیٹ سپر ہائی وے فیز ون و ٹو سمیت شہر کے چھوٹے بڑے تمام انڈسٹریل ایریاز کو جاری کنکشن، میٹرز کی ریڈنگز، میٹر نہ لگنے کی وجوہات اور ایوریج بلنگ کی تمام تفصیلات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو انجینئر کو پابند کریں کہ وہ نیب کراچی میں پیش ہوں۔
ذرائع نے بتایا کہ واٹر بورڈ کی اعلیٰ انتظامیہ کی ملی بھگت سے کراچی کے تمام انڈسٹریل ایریاز میں برسوں پرانے میٹرز نصب ہیں۔ جن میں سے 80 فیصد میٹر ز آر آر جی افسران کی ملی بھگت سے خراب قرار دے کر نکالے جاچکے ہیں۔ جبکہ بیشتر خراب ہیں۔ جس کا فائدہ واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران اٹھا رہے ہیں۔ میٹر نہ ہونے یا خراب ہونے کو بنیاد بناکر بیشتر انڈسٹریز کو پانی کے ایوریج بل ارسال کیے جاتے ہیں۔ جس سے ہر ایک انڈسٹریل ایریا سے ماہانہ واٹر بورڈ کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ کے آر آر جی شعبے کے افسران کراچی کی تمام انڈسٹریز سے لاکھوں روپے منتھلی وصول کرتے ہیں۔ جس کے چار حصے کیے جاتے ہیں۔ نیب کو اس سلسلے میں تمام تر تفصیلات اور شواہد بھی فراہم کردیئے گئے تھے۔ جس پر نیب حکام نے ایم ڈی کو مخاطب کرتے ہوئے ایگزیکٹو انجینئر کو تحقیقات کے لئے طلب کیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ نیب حکام کو ڈائریکٹر بلک بلنگ سہیل خالد کے حوالے سے بھی کرپشن کے شواہد ملے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے فیکٹریوں اور کمپنیوں کی کنزمپشن کم کرنے اور ایوریج بلز کے ذریعے واٹر بورڈ کو ماہانہ لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سہیل خالد ڈپٹی ڈائریکٹر گریڈ کے حامل ہیں۔ تاہم ڈائریکٹر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ اسی طرح انچارج میٹر کنزیومر سیل طارق لطیف کو بھی انکوائری میں شامل کیا گیا تھا۔ کیونکہ انہوں نے میٹر تنصیبات کے لئے کوشش کے بجائے عملے کو ایوریج بلوں میں لگائے رکھا۔ جس سے خزانے کو اب تک اربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ میٹر ڈیپارٹمنٹ میں خراب کارکردگی کی بنا پر انہیں دو بار عہدے سے ہٹایا گیا۔ تاہم ایک ماہ قبل انہیں دوبارہ میٹر ڈیپارٹمنٹ میں ذمہ داریاں دے دی گئی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ میٹر کنزیومر سیل ایک طویل عرصے سے میٹر ز کی تنصیب اور میٹر کی ریڈنگ کے مطابق بلز ارسال کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کیونکہ واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران میٹر نہ ہونے کی وجہ سے ہی ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ وصول کرکے اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کنکشن کیٹگری کی تبدیلی سے واٹر بورڈ کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ بھاری رشوت کے عوض ریزیڈینشل کنکشنز کے حامل صارفین کی کٹیگری تبدیل کی گئی۔ کٹیگری تبدیلی کیلئے نیو کمرشل کنکشن منظور کرانا ہوتا ہے۔ ادارے کو ہر شادی ہال پر کم ازکم 25 لاکھ کا نقصان پہنچاکر فی کس 2 سے 3 لاکھ روپے میں کٹیگری تبدیل کر دی جاتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ علاقائی ڈپٹی ڈائریکٹرز اور عملہ نے اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے صارفین کے میٹر بھی خراب قرار دے نکلوادیئے ہیں۔ میٹر کی تنصیب نہ ہونے اور کیٹگری کی تبدیلی سے پہنچنے والے نقصان کی ایک مثال شارع فیصل پر واقع ایک ریسٹورنٹ کی ہے۔ جس سے واٹر بورڈ کے ایک ڈیپارٹمنٹ نے جب پانی کے کنکشن کی منظوری کا سرٹیفکیٹ مانگا تو پہلے ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اور بعد میں ایف آئی آر پیش کرتے ہوئے ریکارڈ جلنے کا بہانہ بنادیا۔ واٹر بورڈ ذرائع کے مطابق معروف ریسٹورنٹ میں ریزیڈینشل کنکشن ہے۔ لیکن ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے عملے کی ملی بھگت سے بھتہ ادا کرنے کے بعد اس کا کنکشن ’’کمرشل‘‘ ظاہر کردیا گیا ہے اوراسے کمرشل ریٹ کے تحت پانی کا ایوریج بل بھیجا جارہا ہے۔ اس پورے عمل میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ کے قواعد کے مطابق کسی بھی ریزیڈینشل کنکشن کو کمرشل میں تبدیل کرنے کے لئے پرانا کنکشن منقطع کراکے نئے کنکشن کی درخواست دینا ہوتی ہے۔ واٹر بورڈ کنکشن اور لائن کے مطابق مقرر کردہ ریٹس کا چالان بناکر دیتا ہے، جو کمرشل کنکشن کا ہوتا ہے۔ جب اس چالان کی رقم بنک میں ادا کردی جاتی ہے تو نئے کمرشل کنکشن کی منظوری ملتی ہے۔ پھر اس کنکشن کے بعد مذکورہ ہال میں پانی کا میٹر نصب کیا جاتا ہے۔ تاکہ جتنا پانی استعمال ہو اس کے مطابق وصولی بھی ہوسکے۔ تاہم کراچی کے کمرشل صارفین کے پاس میٹر نصب ہیں اور نہ ہی ریڈنگ کے مطابق بلنگ کی جارہی ہے۔ جس سے خزانے کو ماہانہ نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ واٹر بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر کا دعویٰ ہے کہ شہر بھر میں میٹر نہ لگنے کا معاملہ اٹھالیا جائے تو واٹر بورڈ سے آدھی کرپشن ختم ہوجائے گی۔
’’امت‘‘ نے میٹر کنزیومر سیل کی جانب سے انڈسٹریل کنکشن ختم کرنے یا غیر قانونی کنکشن کے نظام کو ختم کرنے کے حوالے سے ادارے میں موجود اینٹی تھیفٹ سیل کے موجودہ انچارج عبدالواحد شیخ سے بات کی تو انہوں نے کہا ’’مجھے ایسا کوئی خط موصول نہیں ہوا۔ مجھ سے پہلے افسر کے پاس ایسی کوئی شکایات یا خط موصول ہوا ہو تو مجھے اس کا علم نہیں۔ انڈسٹریل ایریا میں میٹر کنزیومر سیل نے کوئی کارروائی کرنا ہوگی تو وہ اینٹی تھیفٹ سیل کو خط لکھ کر آپریشن ڈیزائن کراسکتے ہیں۔ لیکن ایک برس کے دوران ایسا کچھ نہیں ہوا‘‘۔ ’’امت‘‘ نے سابق انچارج اینٹی تھیفٹ سیل راشد صدیقی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’’نیب تحقیقات کا تو مجھے علم ہے۔ لیکن کنزیومر سیل نے میرے دور میں اینٹی تھیفٹ سیل کو کوئی خط نہیں لکھا۔ اگر ایسا کوئی خط مجھے ملتا تو میں ضرور کارروائی کرتا‘‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’’ہمارا ڈیپارٹمنٹ پانی چوری کے خلاف آپریشن کے لیئے قائم کیا گیا تھا اور ادارے سے مجھے اس سے متعلق کوئی شکایت ملتی تو میں پابند تھا کہ میٹر کنزیومر سیل کے انچارج کے ساتھ مل کر کارروائی کرتا‘‘۔
’’امت‘‘ نے مذکورہ معاملے پر میٹر کنزیومر سیل کے انچارج طارق لطیف سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’’نیب تحقیقات کے بارے میں مزید کوئی پیش رفت ہوئی ہے تو مجھے اس کا علم نہیں۔ نیب میں پیش ہوکر جو ریکارڈ انہوں نے طلب کیا تھا وہ میں نے جمع کرادیا تھا‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میٹر بلک لائنوں اورانڈسٹریل ایریا میں نصب ہیں۔ جہاں پانی نہیں پہنچ رہا وہاں کے میٹرزکا مسئلہ ہے۔ انڈسٹریل ایریا میں جہاں میٹرز نہیں وہاں ہائی ایوریج بلز ارسال کیے جارہے ہیں۔ تاہم یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ انڈسٹریل ایریا سے واٹر بورڈ کو آمدنی کتنی حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تعینات ہوئے ایک ماہ ہی ہوئے ہیں اور میٹرز کی تنصیب کے لیے اقدامات کر رہا ہوں۔