احمد خلیل جازم:
معاشی ماہرین نے ڈالر 180 روپے سے نیچے آنے کی امید ظاہر کی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کیلئے سیاسی استحکام لانا اور بہتر پالیسیاں بنانا ہوں گی۔
’’امت‘‘ نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اس بیان پر کہ وہ بیس روز میں ڈالر 200 روپے تک لے آئیں گے، سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ڈالر ریزرو میں نہیں رکھتے۔ جو کچھ ڈالر کہیں سے ملتا ہے وہ مارکیٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ جس سے وقتی طور پر ڈالر نیچے آجاتا ہے۔ مارکیٹ سے ڈالر ختم ہوگا تو پھر واپس اوپر چلا جائے گا۔ تو میرے خیال میں یہ دعوے سیاسی ہیں۔ ان میں کوئی زیادہ اکنامک کانٹینٹ نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان کے خسارے تو اسی طرح ہیں جیسے پہلے تھے۔ جو ڈالر کی قیمت میں بہتری آئی ہے وہ ہوسکتا ہے ان کے خوف سے تھوڑی بہت ہو کہ لوگ جو ڈالر چھپا کے بیٹھے تھے۔ انہوں نے سستا ہونے کے خوف سے نکال دیے ہوں۔ لیکن لامحالہ اکنامکس ریفارمز کریں گے۔ ایکسپورٹس زیادہ ہوں۔ ریمٹنس زیادہ آئیں۔ فارن انویسٹمنٹ زیادہ ہو۔ ایسے کچھ کام کریں گے تو پھر روپیہ مستحکم ہوگا۔ باہر سے قرض اورامداد اگر آجائے تو زیادہ اچھی بات ہے۔ لیکن اگر قرض کی صورت میں آئے گا تو تھوڑی دیرکے لیے بہتری ہوگی۔ پھر واپس اسی پوزیشن پر چلے جائیں گے‘‘۔
اس سوال پر کہ وزیر اعظم نے سینٹرل ایشیا کے ساتھ معاشی معاملات کو فاسٹ ٹریک پر لانے کے لیے تین کمیٹیاں بنائی ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ لانگ ٹرم پلاننگ کے ساتھ بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اگر اس میں مسائل حل ہوں تو بہت اچھی بات ہے۔ ان ممالک سے سستا تیل اور گندم لی جائے تو فائدہ ہی فائدہ ہے‘‘۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’یہ جو جیو پالیٹکس ہے۔ اس میں اہم بات چین اور امریکا کے درمیان ان دیکھا تنائو ہے۔ امریکہ کی ساری پالیسیز ہندوپیسفک میں بن رہی تھیں اور وہاں بھارت امریکہ کا حمایتی ہے۔ امریکہ کو کائونٹر کرنے کے لیے چین اور روس آپس میں ملے۔ یوکرین جنگ کے بعد چین روس کا اتحادی بنا۔ اس اتحاد میں شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کا بڑا رول ہے۔ اس کارپوریشن میں ہندوستان اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ ہندوستان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ امریکا کا اتحادی ہوتے ہوئے بھی روس اور چین کا اتحادی بن جاتا ہے۔ ہمیں بھی یہی پالیسی اپنانی ہوگی کہ امریکا سے بھی تعلقات اچھے رکھیں اور روس چین بھی راضی رہیں۔ یہ اصل میں بیلنسگ ایکٹ ہیں۔ جو مختلف ممالک کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس عمل سے انہیں ایک آزاد فارن پالیسی میسر ہو۔ امریکہ جو پہلے اکیلا سپر پاور کہلاتا تھا۔ اب وہ چیلنج ہوگیا ہے۔ روس اور چین نے مل کر اسے بتا دیا ہے کہ وہ اب اکیلا سپر پاور نہیں رہا۔ اس میں بھارت اور پاکستان کا رول دنیا کا سینٹرل پیس نہیں ۔ ہمیں جہاں جو سوٹ کرے گا، وہی کریں گے۔ یہی ہندوستان کرنا چاہتا ہے۔ آج کل آپ کسی کے مکمل طور پر دم نہیں بن سکتے۔ امریکا کے لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ پاکستان کو زیرو کردے اور ہندوستان کو سو فیصد کردے‘‘۔
سعودی عرب کے سستے تیل اور قرض کے معاملے پرانہوں نے کہا ’’دیکھیں بات وہی ہے کہ اس میں کوئی انفرادی فیکٹر نہیں ہوتا۔ سعودی عرب اور پاکستان آپس کے انٹرسٹ طے کریں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی آپ کی امداد کرے گا تو وہ پاکستان کے لیے کرے گا۔ اس ملک کے اسٹرٹیجک انٹرسٹ ہوتے ہیں۔ اسحاق ڈار کی پالیساں پاکستان کے لیے بہتر ہوں گی تو معاشی صورت حال بہتر ہوگی۔ لیکن ابھی صرف باتیں ہی ہیں۔ ڈالر تو پانچ دس روپے ہر دو تین دن بعد اوپر نیچے ہوتا ہے۔ کسی دن آپ نے بڑی پیمنٹ کرنی ہے تو ڈالر کی کمی ہوگی۔ ڈار نے اپنے ریزروکو گرا دیا ہے۔ اس سے مارکیٹ میں ڈالر آگیا ہے۔ لیکن نقصان تو پاکستان کا ہوا کہ ریزرو گر گئے۔ رہا پاکستانی بانڈ کا معاملہ تو یہ اس لیے گرتا جارہا ہے کہ مارکیٹ کو سمجھ ہے کہ آپ درست ریفارمز نہیں کر پائیں گے۔ اس کی بڑی وجہ آپ کی سیاسی بے یقینی ہے۔ سیاست معیشت پر نہیں بلکہ آپس میں لڑنے پر فوکس ہے۔ ڈالر کے ریٹ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں ہے۔ سیاسی استحکام ہوگا تو آپ کا بانڈ پوری قیمت پر بکے گا۔ اور پھر ڈالر 180 تک پہنچ جائے گا‘‘۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیوم سلہری نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ڈار صاحب کا کہنا اس وقت درست ہوگا جب آپ کے انویسٹر ڈالر باہر نکالنا شروع کرتے ہیں۔ ابھی تو نکال رہے ہیں۔ معیشت کے بنیادی اصول تو ابھی تبدیل نہیں ہوئے۔ البتہ اسحاق ڈار کے آنے سے جن لوگوں نے ڈالر ذخیرہ کر رکھے تھے، اپنی انویسمنٹ ڈالر میں تبدیل کر رکھی تھی۔ وہ ڈالر مارکیٹ میں بیچ رہے ہیں۔ پھر آپ کو امداد اور قرض کی شکل میں ڈالر ملنے والے ہیں۔ تو اس سے بھی روپیہ مستحکم ہوگا‘‘۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سینٹرل ایشیا کے لیے وزیر اعظم کی کمیٹیوں سے زیادہ فرق اس لیے نہیں پڑے گا کہ یہاں چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں۔ وہاں انرجی ہے اور اس کے لیے آپ کو افغانستان کے ذریعے آنا پڑے گا۔ ہم وہاں کچھ بھجوا نہیں سکتے کہ وہاں کنزیومر مارکیٹ اتنی بڑی نہیں ہے۔ سوائے انرجی لینے کے۔ البتہ جب تک جیو پولیٹیکل رشیا اور ایران کے ساتھ معاملات سیٹ نہیں ہوتے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن ہمارے بارڈر تک آچکی ہے۔ لیکن اس سے بھی ابھی تک فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ رہی بات چین اور روس کی تو چین کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ روس کے ساتھ کسی کنفلیکٹ میں جائے۔ چین بیلنس رکھے گا۔ ہاں چینی صدر کا قازستان کا دورہ یہ فائدہ دے سکتا ہے کہ روس اور رشیا کے درمیان تنائو کم ہوجائے۔
اس دور حکومت میں پاکستان کی معیشت کی مضبوطی اس بات سے جڑی ہے کہ انرجی پرائسس کا فیکٹر کیا آئے گا۔ مستقبل میں آپ کی انرجی پرائسس کہاں تک جاتی ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ نے انرجی پرائسس کو متاثر کر رکھا ہے۔ ہماری معیشت میں بڑا فیکٹر مون سون کا ہے۔ اگلے برس گندم کا ٹارگٹ کیا رہے گا۔ پورا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ خدانخواستہ فروری مارچ میں جو ہیٹ ویوز پچھلی بار آتی رہیں وہ تو نہیں آتی۔ اسی طرح سیاسی استحکام بھی بڑا فیکٹر ہے کہ کیا نومبر کے بعد مزید سیاست مستحکم ہوتی ہے۔ آرمی چیف نے بہت وضاحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ وہ توسیع لینے کے موڈ میں نہیں۔ تو یہ ساری چیزیں پاکستان کی معیشت پر اثر ڈالیں گی۔ اس وقت ہم دیکھیں گے کہ کیا صورت حال بنتی ہے‘‘۔