اقبال اعوان:
کراچی میں پرائس کمیٹی اور کوالٹی کنٹرول سمیت دیگر متعلقہ سرکاری اداروں کی نا اہلی کے باعث مہنگائی کا طوفان بے قابو ہوگیا ہے۔ جبکہ ناقص اور غیر معیاری اشیا کی فروخت کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے۔ 12 ربیع الاول سے ایک روز قبل شہر میں دودھ 230 روپے لیٹر جبکہ دہی 260 روپے کلو فروخت ہوتا رہا۔ قلت اور کھپت بڑھنے پر من مانی کا سلسلہ جاری ہے۔ سرکاری آٹا عام لوگوں کو نہیں مل رہا ہے بلکہ دکاندار لے کر چکی والے آٹے کے ریٹ 110 سے 120 روپے کلو تک فروخت کررہے ہیں۔
سبزیوں کے ریٹ سیلاب میں سبزیوں اور زرعی زمینوں کی تباہی کا بہانہ بنا کر مزید بڑھتے جارہے ہیں۔ مٹن، بیف، مرغی کے گوشت کے ریٹ روزانہ بڑھائے جارہے ہیں۔ مہنگائی کے دور میں شہری پریشان شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔ واضح رہے کہ کورونا کے بعد سیلاب کی ایمرجنسی کا بہانہ بنا کر سندھ حکومت نے شہریوں پر توجہ کم کر دی ہے۔ شہر میں کھانے پینے کی اشیا کے نرخ منافع خوروں نے مرضی سے لگانا شروع کر دیے ہیں۔ جبکہ پرائس کمیٹی والے ریٹ کی فہرستیں نہیں جاری کررہے ہیں اور چھاپوں کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے دکاندار من مانے ریٹ وصول کررہے ہیں اور کرپشن کا بازار گرم ہے۔ شہری بلبلا اٹھے ہیں اور سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
12 ربیع الاول سے ایک روز قبل ہی زیادہ فروخت ہونے والی اشیا کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ دودھ شہر میں 180 روپے لیٹر اور دہی 210 روپے کلو فروخت ہورہا تھا۔ لیکن دودھ 230 روپے لیٹر اور دہی 260 روپے کلو کر دیا گیا۔ ڈیری اینڈ کیٹل فارمر ایسوسی ایشن کے صدر شاکر گجر کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے روز اوپن مارکیٹ میں دودھ فی لیٹر کی قیمت 226 روپے ہو گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ دودھ منڈی اس کی ذمہ دار نہیں ہوتی۔ اب قلت بڑھتی جارہی ہے یومیہ دودھ 50 لاکھ لیٹرز کی جگہ 30 لاکھ لیٹر آرہا ہے۔ اب 12 ربیع الاول سے ایک روز قبل کھپت ایک کروڑ لیٹر ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ 70 لاکھ لیٹر کی کھپت پوری کرنا مشکل ہے لہٰذا ریٹ بڑھا دیے گئے ہیں۔
عید میلاد النبیؐ کے موقع پر دودھ کا شربت زیادہ بنتا ہے۔ دہی کی لسی زیادہ پی جاتی ہے۔ دہی کھانوں میں زیادہ استعمال ہوتا ہے میٹھے میں کھیر، کسٹرڈ میں دودھ کا استعمال زیادہ ہے اور دودھ کی ٹھنڈی بوتلیں زیادہ پی جاتی ہیں۔ ان سب اشیا کی کھپت بڑھنے اور قلت ہونے پر ریٹ تو اوپر جائیں گے۔ جبکہ دکاندار من مانے ریٹ لیں گے اور کون چیک کرے گا دوسری جانب سرکاری آٹا یوٹیلٹی اسٹور والا عام شہریوں کو بہت کم دستیاب ہے کہ اسٹور کی تعداد بہت کم ہے اور دیگر اشیا کے ساتھ آٹا ملتا ہے۔ اس لیے کم خریدا جارہا ہے۔ جبکہ جن پرچون کی دکانوں پر ملنے کے حوالے سے سرکاری طور پر اعلان کیا گیا تھا اور سڑکوں پر فروخت کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ وہ زیادہ تر کرپشن کا شکار ہو چکا ہے کہ دکاندار کچھ اضافی رقم لے دے کر خرید کر چکی کے آٹے میں ملا کر110 سے 120 روپے کلو فروخت کررہے ہیں۔ جبکہ روٹی والے نان بائی ہوٹل والے سیٹنگ کرکے خرید لیتے ہیں۔ شہریوں کو اتنی آسانی سے سستا آٹا نہیں مل رہا ہے اور لوگ مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔
نان بائی کے ریٹ بڑھتے جارہے ہیں کہ آٹا مہنگا مل رہا ہے عام چپاتی 15 روپے 70/80 گرام والی، 20 روپے والی چپاتی 100 گرام والی، جبکہ روٹی 20 روپے 80 گرام والی، نان 200 گرام والا 30 روپے، پراٹھے چھوٹے 40 سے 50 روپے، بڑا سادہ پراٹھا 60 روپے، آلو والا پراٹھا 80 روپے، انڈے والا پراٹھا 100 روپے اس طرح شیرمال، تافتان 80 روپے کا مل رہا ہے۔ بیکری آئٹم مہنگے ہو چکے ہیں ڈبل روٹی پر ہر سائز پر 30 سے 40 روپے، بڑی کمپنیوں نے ڈبل روٹی اور بن کے ریٹ دگنے کر دیے ہیں۔ پاپے سو روپے کلو، بسکٹ فی کلو 50 سے 100 روپے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس طرح مختلف سائز اور اقسام کے کیک کی قیمتوں میں 60 سے 150 روپے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ شہر میں سبزیوں کے ریٹ کم ہو کر دوبارہ بڑھ چکے ہیں۔ آلو 80 سے 90 روپے کلو، پیاز 150 سے 200 روپے، ٹماٹر ساڑھے تین سو روپے کلو، ادرک چار سو روپے کلو، لہسن 600 روپے کلو، لوکی، کدو، کھیرا 120 سے 170 روپے کلو، گوبھی، شلجم، کریلا، اروی، بھنڈی، گوار پھلی، مٹر کی قیمتیں 200 سے 400 روپے کلو تک جا پہنچی ہیں۔ اب سبزی پائو کے ریٹ پر فروخت کی جارہی ہے۔
دوسری جانب فروٹ من مانے ریٹ پر مل رہا ہے سستے ریٹ کے بعد اچانک مہنگے کر دیے گئے ہیں کیلا 80 روپے درجن، سیب 150 سے 250 روپے کلو، انار 400 سے 600 روپے کلو اور دیگر کے ریٹ بھی بڑھا دیے گئے ہیں۔ بڑے گوشت پر مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہڈی والا عام گوشت 750 روپے کلو اور بچھیا والا 900 روپے کلو، بغیر ہڈی والا ہزار سے بارہ سو روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ دنبے اور بکرے کا گوشت 1400 روپے سے 1700 روپے کلو تک جا پہنچا ہے۔ پولٹری ریٹ میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ انڈے فارمی 260 روپے درجن، دیسی 400 روپے درجن، مرغی کا گوشت نارمل 500 سے 550 روپے کلو اور مخصوص سینے ران کا گوشت ساڑھے 6 سو روپے کلو، بون لیس 800 روپے کلو تک فروخت ہورہا ہے۔ دوسری جانب کیمیکل ملا جعلی دودھ بھی فروخت ہورہا ہے۔ دیہات، گوٹھوں کا بکری، بھینس، گائے، اونٹنی، بھیڑ کا مکس دودھ پانی ملا کر فروخت کیا جارہا ہے اس طرح غیر معیاری مضر صحت اشیا شہری خرید رہے ہیں اور شہر کی خراب صورت حال میں جہاں بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے وہاں جعلی اشیا مزید بیماریوں کو جبنم دے رہی ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس خراب صورت حال کے ذمہ دار سرکاری ادارے ہیں جو توجہ نہیں دے رہے ہیں۔