نواز طاہر:
پنجاب میں اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی طرف سے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی کی حکومت ختم کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی اور ق لیگ کا حکومتی اتحاد ان دعوئوں کو رد کر رہا ہے۔ اس دوران مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی قیادت کا آج لندن میں اہم اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ جس میں ملکی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ اجلاس میں پنجاب حکومت کی تبدیلی کے امکانات اوراقدامات کے قابلِ عمل ہونے پرغوربھی شامل ہے۔ اسی دوران پی ٹی آئی کے اہم وزیر کرنل ریٹائرڈ محمد ہاشم ڈوگر نے داخلہ امورکی وزارت چھوڑ دی ہے اوراپنا استعفیٰ وزیر اعلیٰ کو بھجوا دیا ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے دعوے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی مرکزی قیادت کی طرف سے تاحال نہیں کیے گئے۔ البتہ قومی و صوبائی اسمبلی کے نون لیگی اراکین مسلسل یہ دعوے کر رہے ہیں۔ حال ہی میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے لاہور سے اہم رکن پنجاب اسمبلی رانا مشہود احمد نے بھی کہا ہے کہ پنجاب میں آئندہ ماہ پھر سے مسلم لیگ ن کی حکومت ہوگی۔
اس وقت پنجاب اسمبلی میں اعداد و شمار کے مطابق تحریکِ انصاف کے اراکین کی تعداد ایک سو اٹھہتراوراتحادی جماعت ق لیگ کے اراکین کی تعداد دس ہے۔ یعنی ایک سو اٹھاسی اراکین کی اکثریتی اتحادی حکومت ہے۔ جبکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک سو چھیاسٹھ اراکین کے ساتھ ساتھ پیلز پارٹی کے سات اور راہِ حق پارٹی کے ایک اور پانچ آزاد اراکین کو ملاکر یہ تعداد ایک سو اٹھہتر بنتی ہے۔ جبکہ آزاد رکن چودھری نثار علی خان سارے عمل سے الگ تھلگ ہیں۔ اس وقت تین نشستیں خالی ہیں جن میں سے دو نشستیں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی تھیں۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے اراکین کی طرف سے اس سے پہلے بھی پنجاب میں آئینی تبدیلی کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک دعوے پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی ترجمان عظمیٰ زاہد بخاری نے عددی اکثریت والی جماعت کو اقلیت میں بدلنے کے فارمولے پر وضاحت کی تھی کہ چودھری پرویزالٰہی نے عمران خان کا ساتھ چھوڑنا ہے اور وہ کسی وقت بھی ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی مسلم لیگ ق کی طرف سے چوہدری پرویز الٰہی کے اہم ساتھی سینیٹر کامل علی آغا نے اس امکان کو رد کر دیا تھا۔ مگر چودھری پرویزالٰہی کے لندن کے دورے کے ساتھ ہی مسلم لیگی حلقوں کی طرف سے غیر مصدقہ طور پر بتایا گیا کہ لندن کے اس دورے میں پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے عمل میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے طریقِ کار پرحکومت کی تبدیلی کا دعویٰ کرنے والا کوئی رہنما بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ زیادہ تر اراکین تبدیلی کیلیے مسلم لیگ ق کے دس اراکین کا عدالت میں زیر التوا ’مستقبل ‘ قرادیتے ہیں جن کے بارے میں مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کی کوششوں سے اسمبلی کو مراسلہ لکھا تھا کہ مسلم لیگ ق کے اراکین کا پی ٹی آئی کی حمات میں استعمال ہونے والا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔ مگر عدالت نے اس مراسلے پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ ان مسلم لیگی اراکین کا کہنا ہے کہ جیسے ہی عدالت یہ فیصلہ چوہدری شجاعت حسین کے حق میں آئے گا پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت ختم ہوجائے گی۔ یہ فیصلہ نہ آنے پر کیسے تبدیلی آئے گی؟ اس ضمن میں مسلم لیگ ن کے تمام رہنما خاموش ہیں۔
حالیہ دعویٰ کرنے والے پنجاب اسمبلی کے رکن رانا مشہود علی خان سے بھی ’’امت‘‘ نے بیس سے زائد مرتبہ رابطہ کیا۔ لیکن انہوں نے بھی اس معاملے پر بات نہیں کی کہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ جب مسلم لیگ ق کے اراکین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس معاملے پر یہ کہہ کر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ تمام فیصلے قیادت نے کرنے ہیں۔ ان اراکین نے البتہ ایک بار پھر آف دی ریکارڈ یہ تصدیق ضرور کی ہے کہ مسلم لیگ ق کی قیادت میں اختلافات میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس ذرائع نے یہ تصدیق کی ہے کہ مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی میں خلیج ضرور موجود ہے۔ پی ٹی آئی کی رکن پنجاب اسمبلی زینب عمیر لودھی کے مطابق مسلم لیگ ’’ن‘‘ اب حکومتی عددی اکثریت کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔ وہ صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کو خارج از امکان قرار دیتی ہیں۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے رہنما میاں محمودالرشید کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے گیارہ اراکین پنجاب اسمبلی پاکستان تحریکِ انصاف کے رابطے میں ہیں۔
مسلم لیگی حلقوں کے مطابق پنجاب میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ لیکن یہ کس طرح آنی ہے؟ اس کا ہمیں علم نہیں۔ ان ذرائع کے مطابق اب تبدیلی کے پراسیس کے بارے میں تمام معاملات پارٹی کے لیڈر سابق وزیراعظم میاں نوازشریف خود دیکھ رہے ہیں اور ان کی معاونت صاحبزادی مریم نوازکر رہی ہیں۔ فیملی کے باہر ان معاملات میں جہانگیر ترین شامل ہیں جن کی معاونت تحریکِ انصاف کی پنجاب کی بزدار کابینہ کے رکن عبدالعلیم خان کر رہے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق پنجاب میں حکومت کی تبدیلی میں سیلاب سے متاثر ہونے والے جنوبی پنجاب کا اہم کردار ہوگا۔
ان ذرائع کے مطابق تبدیلی کا ایک عمل وزیر اعلیٰ پنجاب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے عمل سے بھی شروع ہوسکتا ہے، جس میں کچھ حکومتی اراکین غیر حاضر ہوسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ایک رکن صوبائی اسمبلی پہلے یہ تصدیق کرچکی ہیں کہ پنجاب میں گونر راج ہی کے امکان (خوف) سے پنجاب اسمبلی کا پندرہ جون سے طلب کیا جانے والا سیشن ختم نہیں کیا جارہا۔ بلکہ ایک ایک ہفتے کے وقفے سے جاری رکھا گیا ہے۔ تاکہ گورنر راج نافذ کیے جانے کی صورت میں گورنر راج کے نفاذ کا حکم عدالت سے غیر موثر قرادیا جاسکے اور اس جاری سیشن کے دوران وزیر اعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے بھی نہ کہا جائے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ ن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسمبلی کے جلاس کے حوالے سے بھی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی قانونی ماہرین سے مشاورت ہو چکی ہے۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق ہاشم ڈوگر، داخلہ امور کے وزیر کی حیثیت سے پی ٹی آئی کی خواہشات پورا نہیں اتر رہے تھے۔ ان ذرائع کے مطابق ہاشم ڈوگر کا استعفیٰ پنجاب میں غیر معمولی تبدیلی ہے جو مزید آگے بڑھ سکتی ہے۔