ایم کیو ایم دھڑوں کو یکجا کرنے کی ایک اور کوشش

امت رپورٹ:
پہلی قسط
ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرنے کی ایک اور کوشش جاری ہے۔ جس کا مقصد بظاہر کراچی کے سیاسی خلا کو پُر کرنا ہے۔ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم پاکستان میں واپسی اور بعد ازاں انہیں گورنر سندھ بنانا، اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس حوالے سے کامران ٹیسوری اور ایم کیو ایم کے مابین ایک مکمل ڈیل پیکیج طے ہوا ہے۔
ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے سلسلے کا آغاز اگست دو ہزار سولہ کے فوری بعد ہوگیا تھا۔ جب الطاف حسین کی ملک دشمن تقریر کے بعد پاکستان میں موجود پارٹی قیادت نے ان سے مکمل علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم الطاف حسین کی سیاست سے بے دخلی کے بعد سے ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کراچی کے سیاسی خلا کو پُر کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔ خاص طور پر ایم کیو ایم پاکستان میں اندرونی خلفشار پایا جاتا ہے۔ جس کا آغاز فاروق ستار کی علیحدگی سے ہوا تھا۔ اور یوں ایم کیو ایم پی آئی بی کے نام سے ایک الگ گروپ وجود میں آیا۔ الطاف حسین کی کراچی کی سیاست سے بے دخلی کے بعد ایک مضبوط لیڈر شپ نہ ہونے کے سبب ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی مطلوبہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر پچھلے چھ برس کے دوران ایم کیو ایم کے منتقسم دھڑوں کو یکجا کرنے کی کم از کم چار کوششیں کی گئیں۔ جو ناکامی سے دو چار ہوئیں۔
اب اس سلسلے کی پانچویں کوشش کی جارہی ہے۔ جس کی شکل کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم میں واپسی کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں اور بالخصوص کراچی میں بڑھتے سیاسی خلا کی سنگینی محسوس کرنے والے پالیسی ساز، بلدیاتی انتخابات اور آئندہ جنرل الیکشن سے قبل ہر صورت ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ایک کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں سندھ کے شہری علاقوں کا مینڈیٹ بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پاس جا سکتا ہے۔ پھر یہ کہ ایم کیو ایم میں انتشار کے سبب اردو اسپیکنگ کمیونٹی کا ووٹ مسلسل تقسیم ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں الطاف حسین فیکٹر غیر محسوس طریقے سے دوبارہ جڑپکڑ رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ خیال کیا جارہا ہے کہ کراچی کے سیاسی خلا کو دور کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں مہاجر ووٹ بینک پر سیاست کرنے والے تمام گروپ اگر نہ بھی یکجا ہوں، اور صرف ایم کیو ایم بہادر آباد، ایم کیو ایم پی آئی بی اور پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) ایک ہوجائیں تو اس کے خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں کراچی کے بلدیاتی الیکشن اور آئندہ عام انتخابات میں ایک متحد ایم کیو ایم کی کارکردگی، دو ہزار اٹھارہ کے جنرل الیکشن سے بہتر ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ کراچی کے سات اضلاع میں تئیس اکتوبر کو بلدیاتی الیکشن شیڈول ہیں۔ تازہ اطلاعات ہیں کہ سندھ حکومت نے ایک بار پھر کراچی کے بلدیاتی انتخابات مزید تین ماہ ملتوی کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن سے قبل ایم کیو ایم کے دھڑوں کو یکجا کرنے یا ان میں انتخابی اتحاد کرانے کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا تو کم از کم آئندہ عام انتخابات سے قبل اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے دھڑوں کو یکجاکرنے کے مجوزہ پلان کی تازہ کوششوں کے سلسلے میں اگرچہ ایک بار پھر ڈاکٹر عشرت العباد کو کراچی کی سیاست میں فعال کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ لیکن قرعہ فال کامران ٹیسوری کے نام کھلا۔ یوں وقتی طور پر سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اس پلان سے آئوٹ ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل بھی ڈاکٹر عشرت العباد کو کراچی کی سیاست میں اتارنے کی کم از کم تین کوششیں کی جاچکی ہیں۔ جو ناکام ہوئیں (اس کی وجوہات رپورٹ میں آگے جاکر بیان کی جائیں گی)۔ مقصد یہی تھا کہ مائنس الطاف کے بعد ایم کیو ایم کو ایک مضبوط اور عوام کے لئے قابل قبول چہرہ فراہم کیا جاسکے۔ جو تمام دھڑوں کو ایک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ ساتھ ہی پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ایک پل کا کردار بھی ادا کر سکے۔ اس کے لئے ڈاکٹر عشرت العباد کو ایک موزوں شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ اب یہ رول بظاہر کامران ٹیسوری کو سونپا گیا ہے۔ جو عشرت العباد کی طرح پارٹی کو مضبوط لیڈر شپ دینے کے لئے موزوں تو دکھائی نہیں دیتے۔ تاہم پارٹی کو مطلوبہ فنڈز فراہم کرسکتے ہیں۔ جس کی ایم کیو ایم پاکستان کو اس وقت شدید ضرورت ہے۔ کیونکہ بلدیاتی الیکشن اور پھر عام انتخابات کی کمپین چلانے کے لئے بڑے پیمانے پر پیسہ چاہئے۔ ڈاکٹر عشرت العباد اگرچہ مضبوط لیڈر شپ دے سکتے ہیں۔ لیکن پیسہ خرچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ عشرت العباد کا یہ ڈس ایڈوانٹیج کامران ٹیسوری کے حق میں گیا ہے۔ باقی اسٹیبلشمنٹ اور پارٹی کے درمیان پل کا کردار اداکرنے میں کامران ٹیسوری کو بھی کسی دشواری کا سامنا نہیں ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو بہادر آباد مرکز سمیت سات دفاتر دلانے میں ٹیسوری نے ہی رول ادا کیا تھا۔ اسی طرح کم از کم فاروق ستار کے ایم کیو ایم پی آئی بی گروپ اور مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کو ایم کیو ایم پاکستان میں ضم کرانے یا ان کا آپس میں انتخابی اتحاد کرانے کی صلاحیت بھی کامران ٹیسوری رکھتے ہیں کہ دونوں گروپوں کے سربراہوں کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ فاروق ستار کی ایم کیو ایم پاکستان میں واپسی کا عندیہ کامران ٹیسوری دے چکے ہیں۔ جبکہ کامران ٹیسوری کو گورنر بننے کی مبارکباد دینے والوں میں مصطفیٰ کمال بھی شامل ہیں۔
کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم پاکستان میں جس ڈیل پیکیج کے تحت واپسی ہوئی ہے۔ اس میں بلدیاتی الیکشن اور آئندہ عام انتخابات کے انتخابی اخراجات کے لئے فنڈز مہیا کرنا سب سے اہم ہے۔ ذرائع کے بقول دولت مند کامران ٹیسوری کے لئے یہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہے۔
اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کے بیشتر رہنما انفرادی طور پر تو لگژری لائف گزار رہے ہیں اور ان کو کسی قسم کی معاشی پریشانی نہیں۔ تاہم بطور پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان تنگ دستی کا شکار ہے۔ ماضی کی طرح قربانی کی کھالوں کی جبری وصولی اور زکوٰۃ فطرے کے ذریعے بھاری رقوم بٹورنے کا سلسلہ بند ہونا، اس کا بنیادی سبب ہے۔ جو الطاف حسین کی زیر قیادت غیر منقسم ایم کیو ایم کے معاشی انجن کا کلیدی ایندھن ہوا کرتا تھا۔ کراچی کی سیاست سے الطاف حسین کی بے دخلی کے چھ برس بعد بھی ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کو قربانی کی کھالیں جمع کرنے اور زکوٰۃ فطرے کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے۔ کیونکہ کراچی میں امن و امان بحال کرنے والے پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ اگر ان دونوں پارٹیوں کو دوبارہ اس کی اجازت دے دی گئی تو قربانی کی کھالوں کی جبری وصولی اور زکوٰۃ فطرے کے نام پر بھتہ خوری کی سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو سکتا ہے۔ چیریٹی کے نام پر قائم کئے جانے والے ایم کیو ایم کی خدمت خلق فائونڈیشن کو قریباً دو برس قبل اپنی محدود سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت ملی تھی۔ لیکن ایم کیو ایم پاکستان کے خیال میں یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اب کامران ٹیسوری کی شکل میں پارٹی کی معاشی ضرورت پوری کرنے کا ایک دروازہ کھلا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان تو یہ واویلا بھی کرتی رہی ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں الطاف حسین کا سیاسی باب بند کئے جانے کے بعد سے اب تک اسے مکمل سیاسی آزادی نہیں دی گئی ہے۔ پارٹی کے بعض رہنما متعدد دفاتر کی تاحال بندش کو بھی اس سے جوڑتے ہیں۔ اور دعویٰ کرتے ہیں کہ الطاف حسین کے خلا کو پُر نہ کرنے کا ایک سبب ایم کیو ایم پاکستان کو مکمل سیاسی آزادی کا نہ ملنا بھی ہے۔ کامران ٹیسوری سے ہونے والے ڈیل پیکیج کے تحت وہ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے باقی ماندہ دفاتر کھلوانے میں بھی مدد کریں گے۔ جو الطاف حسین کی سیاست سے بے دخلی کے بعد دو ہزار سولہ سے بند پڑے ہیں۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ ماضی میں بہادرآباد مرکز سمیت سات دفاتر کامران ٹیسوری نے ہی کھلواکردیئے تھے۔
کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم پاکستان میں واپسی کی ڈیل کا ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اب وہ سابق میئر وسیم اختر اور ان کے ہمنوا پارٹی رہنمائوں سے ان چھ ارب روپے کا حساب نہیں مانگیں گے۔ جس کا ذکر وہ چار برس پہلے وہ شدت سے کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے اوائل تک ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر رہے۔ ان دنوں کامران ٹیسوری ان کے دست راست تھے۔ دونوں کا کہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے اس وقت کے میئر وسیم اختر کو کراچی میں ترقیاتی کاموں کے لئے چھ ارب روپے کے فنڈز ملے تھے۔ تاہم یہ فنڈز خوردبرد کرلئے گئے اور یہ کہ اسی رقم میں سے فیصل سبزواری نے لینڈ کروزر بھی خریدی تھی۔ فاروق ستار اور کامران ٹیسوری، دونوں چھ ارب کے ان فنڈز کا حساب مانگتے رہے۔ جو آج تک نہیں دیا گیا۔ اب طے پایا ہے کہ اس حساب کا ذکر کامران ٹیسوری بھول کر بھی زبان پر نہیں لائیں گے۔ اس کا ’’خوشگوار‘‘ نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ گورنر کا حلف اٹھانے کے بعد بہادرآباد مرکز کے دورے کے موقع پر میڈیا سے کامران ٹیسوری کے خطاب کے دوران ہر دوسرے جملے پر برابر کھڑے وسیم اختر تالیاں بجارہے تھے۔ (جاری ہے)