نواز طاہر:
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی جانب سے وزیراعظم بھجوائے جانے والے استعفے کی منظوری اور نئے اٹارنی جنرل کا فیصلہ تاحال نہیں ہو سکا۔ یاد رہے کہ اشتر اوصاف علی نے اٹارنی جنرل کا منصب چھوڑنے کیلئے دو روز قبل بدھ کو اپنا استعفیٰ طے شدہ طریق کار کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کو بجھوا دیا تھا۔ تاہم وزیراعظم کی طرف سے انہیں حتمی فیصلے اور نئے اٹارنی جنرل کی تقرری تک فرائض کی انجام دہی جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔
استعفے میں فرائض جاری نہ رکھنے کی بنیادی وجہ انہوں نے کی صحت کی خرابی بتائی ہے۔ تاہم قانونی حلقوں اور اقتدار کے ایوانوں میں دیگر وجوہ کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے۔ جن میں ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر قانون سے بعض امور پر اختلافِ رائے بھی شامل ہے اور یہ بھی کہ حکومت کو دی جانے والی ان کی آئینی اور قانونی رائے کو سیاسی پوزیشن پر موجود بعض وکلا اپنے مقاصد کے برعکس تصور کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے اٹارنی جنرل آفس، ایوانِ وزیراعظم اور وزارتِ قانون کے درمیان خلیج تھا۔ تاہم اٹارنی جنرل آفس اور وزراتِ قانون و انصاف میں اس خلیج کی تصدیق نہیں کی گئی۔ تاہم لاہور میں قانونی اور سیاسی حلقوں میں وزیراعظم سے قربت رکھنے والے قابلِ اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور اٹارنی جنرل میں کیمسٹری بہت ’فِٹ‘ رہی ہے۔ اٹارنی جنرل کی صحت کے بارے میں قریبی حلقوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ اشتر اوصاف عارضہ قلب کے دیرینہ مریض تو ہیں۔ لیکن ساتھ ہی سخت محنتی اور ان تھک بھی ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں دوبارہ اٹارنی جنرل بنایا گیا ہے۔ جبکہ وہ پنجاب میں ایڈووکیٹ جنرل اور وزیراعظم کے معاونِ خصوصی کے طور پر بھی اہم ذمہ داریاں بطریقِ احسن دا کرچکے ہیں۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سربراہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار یہ بھی ہے کہ فاٹا کو صوبہ خیبرپختون کا حصہ بنانے والی آئینی ترمیم کا مسودہ انہیں سے تیار کروایا گیا تھا۔ تاہم ذرائع کے مطابق کچھ عرصے سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ میں پرانے اہم افراد کی جگہ جس طرح کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان حالات میں ممکن ہے صورتحال میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہو۔ جبکہ (ان حلقوں کے بقول) نون لیگ کو کئی معاملات میں ان نئے رہنمائوں کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ جن میں پنجاب میں حکومت سے ہاتھ دھونا بھی شامل ہے۔
لاہور میں وکلا کے سیاسی گروپوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ میں تجربے کے اعتبار سے خلیج موجود ہے اور وفاقی وزیر قانون اپنے ایک دوست بیرسٹر کو اٹارنی جنرل کے منصب پر دیکھنے کے خواہش مند بھی ہیں۔ ساتھ ہی ایک حلقے کی خواہش ہے کہ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کو دوبارہ اٹارنی جنرل مقرر کیا جائے۔ ان ذرائع کے مطابق کچھ اہم تقرریوں سمیت امور میں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل میں اختلاف رائے ایسا نہیں کہ دھیمے مزاج کے سینئر قانون دان محض ان اختلافات کی بنیاد پر اشتعال یا غصے میں استعفیٰ دیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاسی طور پر وفاقی وزیر نذیر تارڑ کا اس وقت مضبوط دھڑا ہے اور حکومتی حلیف جماعت پیپلز پارٹی کے اہم قانونی حلقوں مین بھی ایسے رہنما شامل ہیں۔ جو اعظم نذیر تارڑ کے ساتھ ہیں۔ مگر اشتر اوصاف جیسے سینئر قانون دان کیلیے یہ مسئلہ نہیں اور نہ ہی وہ اپنے جونیئر ساتھیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
ان حلقوں کے مطابق غالب امکان ہے کہ ’مسائل‘ حل ہوجائیں اور یہ استعفیٰ بھی قبول نہ کیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس اٹارنی جنرل کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ صحت بنیادی وجہ ہے اور اٹارنی جنرل کسی بھی قسم کے پریشر کے بجائے پُر سکون کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کے پیشِ نظر اختلاف رائے لڑائی نہیں ہوتی، دلائل ہوتے ہیں جو وکلا کی زندگی کا معمول ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اٹارنی جنرل کو خود بعض امور میں اپنے ساتھیوں سے اختلاف ہے اور وہ مزید اختلافات نہیں چاہتے اور نہ ہی تضادات اور ذہنی دبائو کا شکار ہونا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے سوچ سمجھ کر استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور استعفیٰ وزیراعظم کو بھجوا بھی دیا ہے۔ اب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ صحت کی خرابی کے باعث اٹارنی جنرل کا استعفیٰ قبول کرتے ہیں یا دیرینہ تعلقات کی بنیاد پر ہر صورت میں اٹارنی جنرل کو فرائض کی انجام دہی جاری رکھنے پر راضی کرتے ہیں۔ لیکن اشتر اوصاف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ بحیثیت اٹارنی جنرل کام جاری رکھنے کے امکانات کم ہیں۔ اس ضمن میں صورتحال جاننے کیلیے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے متعدد بار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا۔