برلن(امت نیوز) جرمنی کے چانسلر اولاف شُولز نے کہا ہے کہ روس کی یوکرین کے خلاف جاری جنگ اصل میں مغرب اور اس کی اقدار کے خلاف ایک "صلیبی جنگ ” بھی ہے۔
شُولز نے دارالحکومت برلن میں "2022 ایڈوانس گورننس سربراہی اجلاس” میں بذریعہ ویڈیو پیغام شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ "دنیا اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ اس دور میں جمہوریت کے حامیوں کا باہم متحد ہونا ضروری ہے”۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً ایک سال قبل تک جرمنی میں تین مختلف سیاسی پارٹیاں حکومت کر رہی تھیں۔ ان پارٹیوں کا فریضہ جرمنی کو آزاد مستقبل کی طرف بڑھانا تھا۔ روس کی یوکرین کے خلاف جنگ نے اس فریضے کو مزید دشوار اور زیادہ ضروری بنا دیا ہے۔
شولز کا یہ بھی کہنا تھا کہ "صدر ولادی میر پوتن کے زیرانتظام روس کے یوکرین پر قبضے کے بعد یہ حملے مکمل طور پر ایک نئی شکل اختیار کر چکے ہیں”۔
انہوں نے مزید کہا کہ "جرمنی اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر یوکرین کو مالی، اقتصادی اور اسلحے کا تعاون فراہم کر رہا ہے اور کسی کو کوئی شبہ نہ رہے کہ روس کی اس کھُلی مزاحمت کو توڑنے کے لئے جب تک ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی، ہم یہ مدد فراہم کرتے رہیں گے”۔
اولاف شولز نے کہا کہ "ولادی میر پوتن اور ان کے مددگاروں نے ایک چیز کو واضح شکل میں ثابت کر دیا ہے کہ یہ جنگ صرف یوکرین کے خلاف ہی نہیں لڑی جا رہی بلکہ وہ اسے زیادہ بڑے پیمانے پر ایک صلیبی جنگ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس جنگ کو، لبرل ڈیموکریسی کے خلاف، اصولی بین الاقوامی نظم و ضبط کے خلاف، آزادیوں اور ترقی کے خلاف اور ہمارے طرزِ حیات کے خلاف، ایک صلیبی جنگ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ وہ اسے ایک پورے خطّے، جسے پوتن ‘کمبائنڈ مغرب’ کہتے ہیں، کے خلاف صلیبی جنگ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا اشارہ ہم سب کی طرف ہے۔ اس وجہ سے لبرل ڈیموکریسی اور امن کی حاکمیت کے لئے یوکرین کی فتح ضروری ہے”۔