نمائندہ امت:
حویلیاں میں ٹی ایل پی کے میلاد النبی کے حوالے سے پرامن جلوس پر پولیس کی فائرنگ سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ تحریک لبیک کے تین سے چار کارکنان سمیت ایک پولیس والے کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ لیکن پولیس والے کے جاں بحق ہونے کا مقامی طورپرابھی تک کنفرم نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق تحریک لبیک نے 16 اکتوبر کو عید میلاد النبی کے موقع پر ایک بڑے جلوس کا اہتمام کیا تھا۔ جس کے لیے خیبرپختون حکومت نے فوج اور ایف سی کی تعیناتی کی درخواست کی تھی۔ اس جلوس کی قیادت ٹی ایل پی کے امیر حافظ سعد رضوی کر رہے تھے۔ لیکن جب یہ جلوس حویلیاں میں امیر معاویہ چوک پر اکٹھا ہوا اور چمبہ پل کے قریب ایبٹ آباد کی طرف رخ کرنے لگا، تو اس پرامن جلوس کو پولیس نے شیلنگ کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں پچیس کے قریب تحریک لبیک کے کارکنان زخمی ہوئے اور متعدد پولیس اہلکار بھی جوابی پتھرائو سے زخمی ہوگئے۔ اس حوالے سے تحریک لبیک نے پورے ملک میں احتجاجی کال کی دھمکی دیتے ہوئے کارکنان کو تیار رہنے کا حکم دے دیا۔ اگرچہ اب صورتحال بہت بہتر ہے۔ لیکن تحریک لبیک کے کارکنان ابھی تک وہاں موجود ہیں۔ جبکہ پولیس، فوج اور ایف سی بھی بدستور تعینات ہے۔ بند سڑکیں کھول دی گئی ہیں اور رات گئے انتظامیہ اور ٹی ایل پی میں مذاکرات طے پاگئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق اتوار کے روز جھڑپوں کے نتیجے میں انتظامیہ نے فوج اور ایف سی کا طلب کرلیا تھا۔ ٹی ایل پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کی جانب سے رکن شوریٰ علامہ فاروق الحسن پولیس سے بات کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن پولیس ان سے بات کرنے پر رضا مند نہیں تھی۔ چمبہ پل پر وہ بار بار پولیس سے مذاکرات کی کوشش کرتے رہے۔ آخری بار وہ پولیس کی طرف گئے تو پولیس کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور شیلنگ شروع کر دی گئی۔ سب کچھ پرامن تھا۔ لیکن خیبرپختون حکومت نے معاملے میں بگاڑ پیدا کیا۔ گزشتہ رات دو بجے تک جلوس کے شرکا اور انتظامیہ کے درمیان شدید کشیدگی جاری رہی۔ جس سے علاقے بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ جبکہ آنسو گیس نے اردگرد کے علاقے کو بھی شدید متاثر کیا۔ خاص طور پر بچے، بوڑھے اور خواتین سخت متاثر ہوئے۔
شیلنگ اور جھڑپوں کے بعد تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی کا کہنا تھا کہ ’’انتظامیہ نے پُرامن میلاد النبی کے جلوس پر غیر قانونی و غیر آئینی فائرنگ اور شیلنگ کر کے بدامنی پیدا کر کے ظلم کی انتہا کر دی۔ کلمہ گو حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر ہر جگہ کریں گے۔ جلوس پر پابندی کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ ہر مکتبہ فکر کو آزادی اظہار کا حق ہے تو ہمیں کیوں نہیں؟ انتظامیہ کی جانب سے جلوس پر فائرنگ فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔ میلاد النبی کے جلسوں، محافل نعت اور ناموس رسالت پر ہم کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ میلاد النبی کے جلوس کے اختتام اور واپسی پر سیدھی فائرنگ اور شیلنگ انتظامیہ کی بوکھلاہٹ اور غیر قانونی غیر آئینی حرکت ہے۔ جلوس کے راستے میں انتظامیہ نے کنٹینر لگائے۔ شیلنگ کی۔ سیدھی گولیاں چلائیں۔ جس سے متعدد کارکن زخمی اور شہید ہوئے۔ جلوس اپنے مقررہ راستوں سے ہوتا ہوا منزل تک پہنچا‘‘۔
ہری پور سے بعض مقامی لوگوں سمیت ایک مقامی صحافی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ رات گئے حالات پر کنٹرول حاصل کرلیا گیا تھا۔ اتوارکے روز سار ا دن جی ٹی روڈ ٹریفک کے لیے بند رہا اور ٹریفک کو موٹر وے کی طرف موڑ دیا گیا۔ جبکہ گزشتہ روز مذاکرات کے بعد جی ٹی روڈ کھول دیا گیا ہے۔ لیکن کنٹینر بدستور موجود ہیں اور ٹی ایل پی کے کارکنان بھی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ اس سوال پر کہ یہ پر امن جلوس تھا۔ انتظامیہ نے اس جلوس پر کیوں شیلنگ کرکے اسے منتشر کیا؟ تو متذکرہ صحافی کا کہنا تھا کہ، گزشتہ چار پانچ دنوں سے مسلسل حویلیاں میں امن و امان کے حوالے سے حالات کشیدہ چلے آ رہے تھے۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ ہری پور اور ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں میں اتنی کشیدگی کیوں پیدا ہو گئی ہے اور فوج کو کیوں طلب کر لیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انتظامیہ نے فرقہ وارانہ کشیدگی کے پیش نظر 1993ء میں ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد اور اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں حویلیاں میں فریقین کے ساتھ کا ایک مشترکہ اجلاس کیا۔ جس میں یہ معاہدہ کیا گیا کہ آج کے بعد متنازعہ چوک میں کسی مسلک کا جلوس نہیں نکلے گا۔ یوں اس معاہدے پر کافی عرصہ سے عمل درآمد ہوتا چلا آیا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے مقامی لوگ عید میلاد النبی کے لیے بچوں کے ساتھ یہاں جمع ہوتے اور خوشیاں مناتے، جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ آہستہ آہستہ ہر برس یہ اکٹھ بڑھتا چلا گیا اور پچھلے برس وہاں سے عید میلاد کا جلوس نکالنے کی کوشش کی گئی۔ جس پر دیگر فریقین، معاہدے کے دفاع کے لیے آگے آگئے۔
تحریک لبیک کے لوگوں کو روکا گیا۔ فریقین کے مابین یہی تنازعہ ہوا کہ چوک سے جلوس نہیں گزرے گا یا کہ نہیں گزرے گا۔ جس پر ڈپٹی کمشنر معاہدے پر عمل درآمد کرنے کے لئے فورس لے کر وہاں پہنچے اور انہوں نے اس جلوس کو متنازعہ چوک سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس برس پھر ہری پور سے تحریک لبیک نے جلوس نکالا اور طے کیا کہ ٹی ایل پی جلوس کے شرکا چوک میں میلاد النبی مناتے ہوئے آگے جائیں گے۔ تحریک لبیک کے امیر نے اعلان کیا کہ وہ پنجاب سے جلوس لے کر آئیں گے اور ہری پور سے گزر کر حویلیاں چوک سے ایبٹ آباد جائیں گے۔ اس پر جلوس کو حویلیاں اور ایبٹ آباد میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کی گئی۔ اس تمام صورتحال کو کنٹرول سے باہر ہوتے دیکھ کر مقامی انتظامیہ نے فوج اور ایف سی کی نفری منگوا کر پولیس سمیت تعینات کر دی۔ اس سے قبل چوک کی جانب جانے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے۔ لیکن تحریک لبیک کے کارکنان نے وہاں پہنچنے کی کوشش کی اور یوں پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے اداروں نے انہیں منتشر کرنے کے لیے جارحانہ اقدام کیے۔ جس کے بعد دونوں طرف سے جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
ہری پور کے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ، شیلنگ اس قدر شدید تھی کہ بچوں اور خواتین کے لیے سانس لینا دشوار ہوگیا تھا۔ ہر کوئی خوف کے عالم میں گھروں میں دبک کر بیٹھ گیا۔ یوں لگتا تھا جسے علاقے بھر میں کرفیو کا سماں ہو۔ تازہ اطلاعات کے مطابق تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی دیگر سینئر قیادت کے ہمراہ واپس چلے گئے ہیں اور لاہور میں مسجد رحمت اللعالمین میں شہدا کی تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے شہید کارکناں کی قربانی ضائع نہیں ہونے دی گی اور خیبر پختون حکومت سے ان کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لے گی۔ اس وقت ہری پور میں مرکزی قیادت کا کنٹینر ابھی تک وہیں موجود ہے اور اب بھی مقامی قیادت اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے تحریک لبیک کے کارکنان کافی تعداد میں وہاں دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ بھی ابھی تک الرٹ ہے اور وہ کسی بھی قسم کے ناخوش گوار واقعے کے لیے خود کو تیاررکھے ہوئے ہے۔