امریکی حکام نے بگرام ایئربیس چین کو نہ دینے کی یقین دہانی مانگی تھی-انکار پرافغان وزیر تعلیم سمیت بارہ رہنمائوں پر سفری پابندی اٹھانے سے انکار کردیا-

افغان طالبان و امریکا کے درمیان مذاکرات ناکام

محمد قاسم:
افغان طالبان اور سی آئی اے کے درمیان قطر میں مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے پر امریکہ نے افغان وزیر تعلیم سمیت بارہ طالبان رہنمائوں کے سفر پر پابندی اٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ نے طالبان کو مالی امداد دینے کی پیشکش کرتے ہوئے امریکی اسلحے کی روس اور ایران کو اسمگلنگ روکنے اور بگرام ایئربیس چین کو نہ دینے کی یقین دہانی مانگی ہے۔

’’امت‘‘ کو باوثوق ذرائع نے بتایا کہ چند روز قبل امریکی وفد جس میں سی آئی اے کے نائب ڈائریکٹر بھی شامل تھے، نے قطر میں افغان طالبان کے وفد سے ملاقات کی۔ جس میں افغان خفیہ ادارے کے سربراہ مولانا واثق باللہ نے بھی شرکت کی۔ امریکی حکام نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ روس اور چین کا افغانستان میں بڑھتا ہوا کردار امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ چین بگرام ایئربیس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جبکہ یوم استقلال کے موقع پر بھی چینی حکام بگرام ایئربیس میں موجود تھے۔ جبکہ قطر معاہدے کے مطابق افغان طالبان کسی ایسے فرد یا ملک کو اپنی سرزمین نہیں دیں گے جو امریکی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔ چین اور روس، افغانستان میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں اور مبینہ طور پر امریکی فوجی گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کی مرمت میں بھی معاونت کر رہے ہیں۔ لہٰذا چین اور روس کو افغانستان میں موجود امریکی اسلحہ تک رسائی کو روکا جائے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے ہر ماہ 40 کروڑ ڈالرز ماہانہ افغان طالبان کو دے رہا ہے اور امریکی مطالبات ماننے کی صورت میں یہ امداد 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق افغان وفود نے امریکی حکام کو بتایا کہ قطر معاہدے میں دہشت گردوں کو پناہ نہ دینے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ دوسرے ممالک سے معاہدے کرنے میں افغان حکومت آزاد ہے۔ افغان حکومت عوامی منصوبوں کے لیے چین سے معاونت لے رہی ہے۔ بگرام ایئربیس کسی ملک کے حوالے نہیں کیا جارہا ہے۔ جبکہ دنیا میں ایسے کئی معاہدے موجود ہیں کہ امریکہ سمیت کئی ممالک کے دوسرے ممالک میں اڈے موجود ہیں۔ چین اس وقت افغان حکومت کا پاکستان کے بعد بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور بیجنگ حکومت چین کے ساتھ مزید تعاون بڑھانے کیلیے بھی تیار ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ کو طالبان نے کسی قسم کی یقین دہانی کرانے سے انکار کرتے ہوئے سی آئی اے کے اعلیٰ حکام کو بتایا کہ جب امریکہ طالبان کو تسلیم ہی نہیں کر رہا ہے۔ تو اس صورت حال میں افغان طالبان اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں۔

افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کے بعد امریکہ نے افغان وزیر تعلیم سمیت خفیہ ادارے کے سربراہ اور دیگر بارہ رہنمائوں پر سفری پابندی اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ افغان رہنما خواتین کی تعلیم اور حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں۔ لہٰذا افغان رہنما دنیا کے دیگر ممالک کا سفر نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں ایک اہم کانفرنس میں ملا برادر اور وزیر انصاف شیخ عبدالحکیم کو دعوت کے باوجود افغان حکومت کے ترجمان ملا ذبیح اللہ مجاہد نے کانفرنس میں شرکت کی۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کانفرنس کے شرکا کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ امریکہ افغان حکومت کو اس لیے تسلیم نہیں کر رہا ہے کہ طالبان کو تسلیم کرنا اسلامی نظام کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان سے امریکہ اور یورپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دوسری جانب افغان وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار انور وطن یار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان حکومت کو اب ان پابندیوں سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ دیگر ممالک کے سرکاری حکام پر افغانستان کے سفر پر کوئی پابندی نہیں ہے اور اس سے بھی طالبان کو فائدہ ہو گا۔ طالبان اپنی سفارتی مہم میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ان عہدیدار کے مطابق امریکہ کو یقین ہو چکا ہے کہ طالبان حکومت چلانے میں کامیاب ہو گئے تو پنجشیر میں بغاوت ختم ہو جائے گی۔ جس سے امریکا اور مغرب نے امیدیں باندھ رکھی تھیں۔ جبکہ اندرون ملک بھی عوام طالبان کے اقدامات سے مطمئن ہیں۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ تاکہ افغان حکومت کو دیگر ممالک سے روابط قائم کرنے سے روکا جائے۔ لیکن امریکہ اور اس کے ہم نوائوں کا یہ حربہ بھی ناکام ہو جائے گا۔