اظفرعباسی:
سندھ حکومت قانون کی حکمرانی اور امن و امان کے قیام کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اقتصادی حب کراچی میں روزانہ 155 سے زائد موٹر سائیکلیں چوری یا چھینی جارہی ہیں۔ جبکہ عوام کی خدمت گار پولیس کا یہ حال ہے کہ وہ یومیہ صرف 9 موٹر سائیکلیں ہی برآمد کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ شہر میں اسٹریٹ لائٹوں کی عدم موجودگی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے سبب ڈکیتوں کو کارروائی میں آسانی رہتی ہے۔ جبکہ کورنگی، گلشن اقبال، نیو کراچی، اورنگی ٹاؤن اور بفرزون کے علاقے اسٹریٹ کرائمز کا گڑھ بنے ہوئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری سے ستمبر تک 38 ہزار 285 موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں۔ جبکہ 3 ہزار 712 چھینی گئیں۔ یوں پچھلے نو ماہ کے دوران اہالیان کراچی مجموعی طور پر 41 ہزار 997 موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے۔ سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی (CPLC) سے (2022ئ) کے دوران موٹر سائیکلیں چھیننے اور چوری کیے جانے سے متعلق ڈیٹا کے مطابق جنوری میں 419 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں۔ جبکہ 3908 چوری ہوئیں۔ برآمدگی کی تعداد صرف 319 رہی۔ فروری میں 405 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں اور 4081 چوری ہوئیں۔ جبکہ 271 موٹر سائکلیں پولیس ملزمان سے برآمد کر سکی۔ مارچ میں 426 موٹر سائکلیں چھینی گئیں اور 4285 چوری ہوئیں۔ جبکہ اس مہینے برآمد کی گئی موٹر سائیکلوں کی تعداد 286 رہی۔ ماہ اپریل میں 353 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں اور 3952 چوری ہوئیں۔ لیکن ریکوری میں پولیس کے ہاتھوں محض 184 موٹر سائیکلیں ہی آسکیں۔ مئی کے مہینے میں 383 موٹر سائکلیں چھینی گئیں اور 4454 چوری ہوئیں۔ برآمدگی کی تعداد 246 موٹر سائیکلیں رہیں۔ جون کے مہینے میں نامعلوم ملزمان اسلحے کے زور پر 456 موٹر سائیکلیں چھین کر لے گئے۔ جبکہ 4197 موٹر سائیکلیں چوری کی گئیں۔ پولیس صرف 248 موٹر سائیکلیں برآمد کرنے میں کامیاب ہو سکی۔
جولائی کے مہینے میں 393 موٹر سائیکلیں چھنی اور 3984 چوری ہو ئیں۔ ریکوری میں صرف 150 موٹر سائیکلیں ہی برآمد کی جا سکیں۔ اگست کے مہینے میں 450 موٹر سائیکلیں چھنی اور 4869 چوری کی گئیں۔ جبکہ برآمدگی کی تعداد 257 رہی۔ ستمبر میں موٹر سائیکلوں کی چوری اور چھینے جانے کی 4980 وارداتیں ہوئیں۔ 427 موٹر سائیکلیں اسلحے کے زور پر چھینی گئیں اور چوری کی جانے والی موٹر سائیکلوں کی تعداد 4553 رہی۔ جبکہ عوام کی خدمت گار پولیس صرف 282 موٹر سائیکلیں ہی برآمد کر سکی۔ یعنی سال دو ہزار بائیس میں نو ماہ کے دوران 41 ہزار 997 موٹر سائیکلیں چوری اور چھینی گئیں۔ جو ماہانہ اوسطا 4666 بنتی ہیں۔ جبکہ برآمد کی جانے والی موٹر سائیکلوں کی تعداد 2243 رہی۔ اس طرح کراچی والے روزانہ اپنی خون پسینے کی کمائی سے خریدی گئی اوسطاً 155 موٹر سائیکلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جبکہ پولیس کے ہاتھوں برآمد ہونے والی موٹر سائیکلوں کی تعداد اوسطاً 9 کے قریب رہی۔ اسی طرح سال 2021ء میں 4 ہزار 453 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں۔ جبکہ 46 ہزار 388 موٹر سائیکلیں چوری کیے جانے کی رپورٹ ہوئیں۔ یعنی گزشتہ برس میں 50 ہزار 841 موٹر سائیکلیں چوری اور چھینی گئیں۔ اوسطاً ہر ماہ کے دوران 4 ہزار 236 موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری کی گئیں۔ جبکہ سی پی ایل سی کے اعداد و شمار کے مطابق 2021ء میں صرف 2993 موٹر سائیکلیں برآمد کی جا سکیں۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے کراچی پولیس کی ترجمان شازیہ قریشی سے رابطہ کرکے ان سے موٹر سائیکل چوری اور چھینے جانے کی تفصیلات مانگیں۔ مگر تین دن انتظار کے باوجود ان سے اعداد و شمار نہ مل سکے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکلیں چوری اور چھیننے میں منظم گروہ ملوث ہیں۔ جنہیں گرفتار کئے بغیر یہ اعداد و شمار نیچے نہیں آسکیں گے۔ جبکہ رات میں اسٹریٹ لائٹس کا روشن نہ ہونا اور سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اسٹریٹ کرمنلز کیلئے وارداتوں کیلئے موزوں ہے۔ یوں تو شہر کا کوئی علاقہ اسٹریٹ کرمنلز سے محفوظ نہیں۔ مگر کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں تسلسل سے وارداتیں ہونے کے باعث انہیں ہاٹ اسپاٹس کہا جاتا ہے۔ کورنگی، گلشن اقبال، نیو کراچی، اورنگی ٹاؤن اور بفرزون ایسے علاقے ہیں۔ جہاں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں دیگر علاقوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ کراچی پولیس کی جانب سے روزانہ موٹر سائیکل چوروں اور ڈکیتوں کی گرفتاریاں ظاہر کی جاتی ہیں۔ لیکن وارداتیں کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں اور اسے کنٹرول کرنے میں کراچی پولیس ناکام نظر آتی ہے۔ حالانکہ اب کئی جگہوں پر ورداتوں کی سی سی ٹی فوٹیج بھی منظر عام پر آجاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی ملزمان گرفتار نہیں ہوتے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس اگر چاہے تو وہ موٹر سائیکل چور اور ڈکیتوں سے آہنی ہاتوں سے نمٹ سکتی ہے۔