اقبال اعوان:
کراچی میں چلنے والی سرکاری لال بسیں شہریوں کو مہنگی پڑنے لگیں۔ کرائے دوگنے کرنے پر شہری پریشان ہو گئے۔ جبکہ بسوں کے عملے کے غیرمناسب رویے سے بھی شہری شاکی ہیں۔ شہریوں نے سندھ حکومت سے کرائے مناسب رکھنے اوران کے نیٹ ورک پرنگرانی بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب چنگ چی رکشے والوں نے کرائے کم کر دیے ہیں۔ جس کے بعد معاشی اور مہنگائی کے ستائے شہری دوبارہ چنگ چی رکشوں کا استعمال کرنے لگے۔ چنگ چی رکشوں کے ٹرانسپورٹر محمد مبین کا کہنا ہے کہ کراچی میں چنگ چی رکشوں کے کم از کم 2 سو سے 3 سو روٹ چلتے تھے اوراکثریت پراب بھی چنگ چی رکشے چل رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گرین بس منصوبے کے بعد سندھ حکومت نے سرخ بس سروس متعارف کرائی ہے۔ جس کے 10 روٹ چل رہے ہیں اور بسوں کی تعداد 2 سو سے زائد کی جا چکی ہے۔ سروس شروع کرتے وقت اعلان کیا گیا تھا کہ ان بسوں کا کرایہ 20 سے 30 اور 40 روپے۔ جبکہ آغاز سے اختتام تک 50 روپے ہوگا۔ وقت کی بچت کے لیے مخصوص اسٹاپ پر ہی بسیں روکنے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم ان بسوں کے کنڈیکٹرز کو صرف 50 روپے والے ٹکٹ دیئے گئے کہ ایک اسٹاپ تک جائو یا شروع سے آخری اسٹاپ تک۔ ٹکٹ صرف 50 روپے والا ہو گا۔ شہری پہلے ہی کرائے زیادہ رکھنے پر پریشان تھے۔ بالخصوص کم اسٹاپ والے زیادہ پریشان تھے۔ جب روٹ نمبر 9 کا افتتاح کیا گیا تو گلشن حدید سے ٹاور تک آنے والی بس کا کرایہ 50 روپے کیا گیا۔
چند روز قبل کرایہ بڑھاکر 100 روپے یعنی دگنا کر دیا گیا۔ بس کے کنڈیکٹر گلشن حدید سے ملیر کینٹ تک 50 روپے اورآگے 100 روپے کا ٹکٹ وصول کر رہے ہیں۔ اسی طرح ٹاور سے آنے والی گاڑی میں ملیر کینٹ تک 50 روپے اورآگے کالا بورڈ جانے والوں سے 100 روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ روٹ نمبر2 کی بسیں کورنگی کراسنگ سے کورنگی نمبر 5 فلائی اوور سے شاہ فیصل کالونی، شاہراہ فیصل، ڈرگ روڈ سے خواجہ اجمیر نگری تک جاتی ہے۔ اس کا کرایہ 50 روپے ہے۔ اب گلشن حدید، اسٹیل ٹائون، شاہ لطیف ٹائون، بھینس کالونی، قائد آباد، ملیر سٹی، ملیر پندرہ، ملیر کالا بورڈ کے لاکھوں رہائشیوں کے لیے صرف R-9 کی 20 بسیں ہیں۔ جو کرایہ بھی ڈبل وصول کر رہی ہیں۔ جبکہ شہر کے 9 روٹ والے آغاز سے اختتام تک 50 روپے لیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب شہریوں کو شکایات ہیں کہ ملیر کینٹ سے آنے والی R-1 گلشن حدید سے آنے والی R-9 بسوں کے درمیان زیادہ مسافر اٹھانے کے چکر میں شاہراہ فیصل پر ریس ہوتی ہے اور اس پر اگر مسافر کچھ کہے تو کنڈیکٹر اسے یہ بول کر خاموش کرا دیتے ہیں کہ انہوں نے شام کو حساب دینا ہوتا ہے۔ تاہم اب صورتحاک یہ ہے کہ ان بسوں کے کرائے بڑھنے پر مسافروں کی تعداد کم ہو چکی ہے۔ سیٹ بائی سیٹ والا نظام چونکہ ختم ہو چکا ہے۔ لہذا خواتین کے حصے میں بھی مردوں کو ٹھونس دیا جاتا ہے کہ دروازے بند کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بسوں کے مخصوص اسٹاپ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں فرش پر لال پینٹ کر کے ’’ریڈ بس اسٹاپ‘‘ لکھا گیا ہے۔ تاہم ان بسوں کے کنڈکٹر عام پبلک ٹرانسپورٹ کی مزدا کی طرح دروازے کھول کر بغیر اسٹاپ کے لوگوں کو چڑھاتے اور اتارتے ہیں۔ اس دوران ایئرکنڈیشن بار بار بند کیا جاتا ہے۔ جس سے ایئرکنڈیشن سسٹم بھی خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ ٹکٹ زیادہ وصول کرنے اور بغیر اسٹاپ بس روکے جانے پر مسافر اعتراض کرے تو دھمکی دی جاتی ہے کہ سرکاری بس ہے۔ واضح رہے کہ ڈرائیور اور کنڈکٹرز کو مددگار 15 کو بلوانے اور پولیس کے حوالے کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ ٹریفک پولیس جو پبلک ٹرانسپورٹ اور چنگ چی رکشوں والوں پر قہر بن کر ٹوٹتی ہے اور بھاری چالان کرتی ہے کہ اسپیڈ زیادہ کیوں رکھی۔ اوورٹیک کیوں کیا۔ شاہراہ فیصل پر بار بار بغیر اسٹاپ کیوں روکا۔ لیکن لال بس والوں کو سرکاری ہونے پر کچھ نہیں کہا جاتا۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کم اسٹاپ پر کم کرائے کا اعلان کرے اور مزید کرایہ نہ بڑھایا جائے۔ جبکہ سندھ حکومت ان بسوں کے نیٹ ورک کی مانیٹرنگ بھی کرے اور عملے کی دھونس دھمکی کو اور غیر مناسب رویے کو ختم کرائے۔ شہریوں کے مطابق سرکاری بسیں چلنے پر خوش ہونے والے عوام ایک دو اسٹاپ کے 50 روپے دینے کے بجائے چنگ چی رکشوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جبکہ چنگ چی رکشوں کے ٹرانسپورٹر محمد مبین کا کہنا ہے کہ کراچی میں لال بسیں 10 روٹ پر چل رہی ہیں اور گرین منصوبے کے باوجود کراچی میں مکمل طور پر تمام روٹ کور نہیں ہوئے۔ شہر میں چنگ چی رکشوں کے 2 سے 3 سو روٹ چلتے تھے۔ چنگ چی رکشوں کے کرائے بھی کم کردیئے گئے ہیں اور ایک دو یا کم اسٹاپ والوں سے دس بیس روپے لیے جا رہے ہیں۔