امت رپورٹ:
نون لیگ کے اہم رہنما خواجہ آصف نے اگرچہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین کسی قسم کے مذاکرات کی تردید کی ہے۔ تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔ نا صرف بیک ڈور بات چیت کا دروازہ تاحال کھلا ہے، بلکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ایک روز قبل فریقین کے مابین باقاعدہ مذاکراتی نشست کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ میڈیا میں یہ بھی آچکا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے ان مذاکرات میں پرویز خٹک اور اسد قیصر جبکہ نون لیگ کی طرف سے خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق شامل تھے۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا کیا تھا؟
’’امت‘‘ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی اور نون لیگ کے مابین آٹھ نکات پر مذاکرات ہوئے۔ ان آٹھ نکات میں اول یہ تھا کہ نیب قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ دوئم، امریکی سائفر کا ایشو ختم کردیا جائے گا۔ سوئم، آرمی چیف کی تقرری پر سیاست نہیں کی جائے گی اور جنرل باجوہ مقررہ تاریخ پر ریٹائر ہوجائیں گے۔ چہارم، عمران خان سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف درج مقدمات واپس لے کر انہیں کلین چٹ دی جائے گی۔ پنجم، نواز شریف کو عدالت سے کلیئرنس کے بعد واپس آنے اور انتخابات میںحصہ لینے کی اجازت ہوگی۔ ششم، لانگ مارچ ترک کرکے پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آئے گی اور معیشت کے ایک چارٹر پر دستخط کرے گی، ساتھ ہی انتخابی اصلاحات سمیت دیگر ریفارمز پر رضا مند ہوگی، تاکہ ملک کو بہتری کی طرف لے جایا جاسکے۔ ہفتم، موجودہ اتحادی حکومت کو اگست دوہزار تئیس تک اپنی مدت پوری کرنے کی اجازت دی جائے گی یا پھر عمران خان کو فیس سیونگ کے لئے انتخابات، مقررہ مدت سے چند ماہ پہلے مارچ یا اپریل میں کرا دیئے جائیں گے۔ لیکن یہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بغیر ہوں گے۔ ہشتم، ایک بار اگر متحارب سیاسی پارٹیوں کے مابین پیچ اپ ہوجاتا ہے تو عدلیہ اور فوج کی سرپرستی میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد آسان ہوجائے گا۔
مذاکرات کی اولین میٹنگ میں زیر بحث آنے والے ان بنیادی نکات میں سے بیشتر پی ٹی آئی کے حق میں تھے۔ تاہم اس کے اگلے روز توشہ خانہ کیس سے متعلق الیکشن کمیشن پاکستان کا اہم فیصلہ آگیا، جس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو نا اہل قرار دیدیا گیا۔ جبکہ اسی روز پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بھی نکل گیا۔ ان دو اہم ڈویلپمنٹ نے ڈگمگاتی حکومت کو سہارا دیا اور مذاکرات میں اس کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی بارگیننگ پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ اگر عمران خان کی نا اہلی سے متعلق الیکشن کمیشن پاکستان کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتا ہے تو پی ٹی آئی کو آکسیجن مل جائے گی اور وہ ایک بار پھر اپنے زیادہ سے زیادہ مطالبات منوانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔
واضح رہے کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نا اہلی کو پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ہے اور آج پیر کو اس کی سماعت متوقع ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد سے پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کا دوسرا دور اگرچہ نہیں ہوا ہے، لیکن بیک ڈور چینل تاحال کھلا ہے۔ عمران خان کی جانب سے اسی لئے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے میں مسلسل تاخیر کی جارہی ہے۔ پرویز خٹک اور اسد قیصر چیئرمین پی ٹی آئی کی اجازت سے ہی حکومت کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس کی تفصیلات ان کے بخوبی علم میں ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ آئندہ جمعہ کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ ذرائع کے بقول یہ اعلان مذاکرات کے ساتھ ساتھ حکومت پر دبائو رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد حکومت اگر اپنی مضبوط پوزیشن کا فائدہ مذاکرات میں اٹھانے کا سوچ رہی ہے تو اسے کائونٹر کیا جاسکے۔
یاد رہے کہ سینیٹر اعظم سواتی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا بالواسطہ اعتراف کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ سیاسی پارٹیوں کے مابین بات چیت چلتی رہتی ہے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے مذاکرات کی کامیابی کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت انتخابات کرانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ لہٰذا مذاکرات کا نتیجہ نکلنا مشکل دکھائی دے رہا ہے، چنانچہ وہ جمعہ اٹھائیس اکتوبر کو لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دے دیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کی حتمی تاریخ سے متعلق عمران خان کی تازہ دھمکی کی ڈیڈ لائن پوری ہونے سے قبل حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کی ایک اور نشست متوقع ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے اعلان کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ یہ پہلی بار نہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین پس پردہ مذاکرات شروع ہورہے ہیں۔ اس نوعیت کی یہ تیسری کوشش ہے۔ عمران خان کے پچیس مئی کو لانگ مارچ کے آغاز سے پہلے اور مارچ کے دوران بھی فریقین کے مابین بیک ڈور چینل کھلا ہوا تھا۔ ریاست کو انتشار سے بچانے کی خواہشمند اہم طاقتیں اس وقت بھی فریقین کے مابین برف پگھلانے میں رول ادا کر رہی تھیں۔ تب پس پردہ مذاکرات میں پی ٹی آئی کی جانب سے پرویز خٹک کے ساتھ اسد قیصر کے بجائے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر تھے۔ جبکہ اتحادی حکومت کی طرف سے ایاز صادق اور یوسف رضا گیلانی کردار ادا کر رہے تھے۔ اسی طرح پچیس مئی کے ادھورے لانگ مارچ کے دو روز بعد بھی پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کے انہی نمائندوں کے مابین باقاعدہ رابطے ہوئے تھے۔ آج کی طرح اس وقت بھی پس پردہ ان مذاکرات پر آمادگی کا اظہار پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے کیا تھا۔ وزیر اعظم کی طرف سے مذاکرات کی دعوت دینے کے بعد پی ٹی آئی کے متذکرہ رہنمائوں نے عمران خان کی منظوری سے حکومت سے رابطے کئے تھے۔ ابتدائی طور پر یہ طے پایا تھا کہ مذاکرات میں انتخابی اصلاحات اور فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ روکا جائے گا۔ تاکہ نتیجہ خیز مذاکرات کا راستہ ہموار ہوجائے۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں واپسی سمیت دیگر اہم نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم یہ پس پردہ مذاکرات پٹری سے اتر گئے تھے اور بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کے بعد ستمبر کے اوائل میں پس پردہ مذاکرات کی ایک اور کوشش کی گئی تھی۔ بدقسمتی سے یہ کوشش بھی ناکام رہی۔ تاہم اس دوران بیک ڈور چینل مسلسل کھلا رہا اور اب تیسری بار پس پردہ مذاکرات کے ذریعے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان شدید تنائو ختم کرنے اور لانگ مارچ کو ٹالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاکہ بنیادی ایشوز پر اتفاق رائے پیدا کرکے ملک کو مزید سیاسی بحران اور انتشار سے بچایا جاسکے اور معیشت کی بہتری کے لئے مشترکہ کوشش کی جائے۔
تاہم تازہ بیک ڈور مذاکرات سے آگاہ ذرائع زیادہ پرامید نہیں ہیں اور ان کے خیال میں پچھلے پانچ ماہ کے دوران حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کی یہ تیسری کوشش بھی نتیجہ خیز ہونے کے امکانات معدوم دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت مقررہ وقت پر الیکشن کرانے سے متعلق اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ جبکہ عمران خان ہر صورت قبل از وقت انتخابات کی تاریخ چاہتے ہیں۔ بصورت دیگر وہ آخری پتے کے طور پر لانگ مارچ کا ماحول بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ انہیں علم ہے کہ یہ راستہ خطرات سے بھرا ہے۔ اسی لئے انہوں نے لانگ مارچ کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ فیس سیونگ کے لئے درمیان کا راستہ نکالنے کی خاطر اپنے پارٹی رہنمائوں کو مذاکرات کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔
عمران خان کی نااہلی کے بعد بظاہر ہوا کا رخ بدل کر حکومت کے حق میں ہوگیا ہے۔ لیکن نومبر اور دسمبر کے سرد مہینے سیاسی گرما گرمی سے بھرے ہوں گے۔ جس میں قسمت کا پنڈولم کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری جانب ڈولتا رہے گا۔ فی الحال اس وقت سب کی نظریں عمران خان کی جانب سے آئندہ جمعہ تک دی جانے والی ڈیڈ لائن پر ہے۔ تجزیہ نگاروں کے بقول اگر پی ٹی آئی چیئرمین نے لانگ مارچ کے حوالے سے کوئی تاریخ دے بھی دی، بیک ڈور چینل پھر بھی کھلارہے گا۔