عمران خان:
کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے آنے والی اسمگلنگ کی کھیپ کو کلیئر کروانے میں مبینہ طور پر سرگرم کردار ادا کرنے والے کسٹمز افسران، سابق اولمپین ہاکی پلیئرز اور شہر کے درجن سے زائد دیگر بڑے کھیپیوںکے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا۔ جبکہ کراچی ایئرپورٹ سے حالیہ دنوں میں بین الاقوامی پرازوں میں ہفتہ والی کروڑوں ڈالر کے سامان کی اسمگلنگ کی اطلاعات پرکسٹمز حکام کی ہدایات پر مانیٹرنگ انتہائی سخت کردی گئی۔ جس کے نتیجے میں بین الاقوامی پرواز سے آنے والے شہر کے 16 بڑے کھیپیئوں کے کیریئرز کروڑوں روپے کے موبائل فونز، لیپ ٹاپ، گھڑیوں سمیت دیگر سامان کے ساتھ حراست میں لے لئے گئے۔
اطلاعات کے مطابق حیرت انگیز طور پر ان گرفتار ملزمان کو دو ہفتوں تک اسمگلروں کی فرمائش پر ملی بھگت اور رقم کے عوض کسٹمز ریمانڈ میں پریونٹو ہیڈ کوارٹرز کے ماتحت چلنے والے کسٹم ہائوس کے لاک اپ میں رکھا گیا، جہاں انہیں سہولیات فراہم کی گئیں۔ کیونکہ کھیپی اصرار کرتے رہے کہ ان کے کیریئرز یہاں آرام سے ہیں اور ان سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔ اگر جیل بھیج دیا گیا تو بہت مشکلات برداشت کرنی پڑیں گی۔ مذکورہ کھیپوں کے برآمد ہونے پر مقدمات درج کرنے کے بعد ایئر پورٹ پر بڑے پیمانے پر تبادلے بھی کردیئے گئے۔ کسٹمزکے اعلیٰ حکام کی جانب سے کراچی ایئرپورٹ کلکٹریٹ کے ایڈیشنل کلکٹر اور اسسٹنٹ کلکٹر ٹرمینل کو ہٹاکر انہیں ایئر پورٹ ایئر فریٹ یونٹ میں بھیج دیا گیا۔ اس کے علاوہ شعبہ بین الاقوامی آمد سے کسٹمز ایس پی ایس سمیت متعدد افسران اور اہلکاروں کو ہٹا کر ان کے تبادلے کسٹمزانٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ کراچی میں کردئے گئے۔ جن میں 17 گریڈ کے ایس پی ایس جمال ضیا جو کہ گزشتہ کئی برسوں سے ایئر پورٹ کے شعبہ بین الاقوامی آمد پر شفٹ انچارج کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پریونٹو کے گریڈ 16کے 9 دیگر افسران حسن سردار، ظہیر احمد، محمد سلیم ، زبیر احمد بھٹی، محمد عاصم نواز، محمد زبیر، امان الحق صفدر، توصیف احمد، محمد قدیر خان کا بھی پریونٹو کسٹم ہائوس سے تبادلہ کرکے انہیں کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ کراچی بھیج دیا گیا۔ اس ضمن میں بعض افسران کا کہنا ہے کہ ایئر پورٹ پر چلنے والے اسمگلنگ کے نیٹ ورک کی تحقیقات میں اگر شفٹوں میں کام کرنے والے ماتحت پریونٹو افسران کو قصور وار قرار دے کر ان کے تبادلے کئے جا رہے ہیں یا پھر ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے تو اعلیٰ افسران جن میں اے سی، ڈی سی اور اے ڈی سی وغیرہ شامل ہیں، ان کی سرزنش کیوں نہیں کی جاتی۔ وہ بھی اتنے ہی ذمے دار ہیں کیونکہ یہ شعبہ آمد اور شعبہ روانگی کی شفٹوں کے ذمے دار ہوتے ہیں۔
ذرائع کیمطابق ماہ قبل ایئرپورٹ پر اسی طرح کی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کسٹمز شعبہ آمد کے افسران نے مجبوری میں ایک کارروائی میں صدر موبائل مارکیٹ میں سرگرم ایک گروپ کے کارندوں کا کروڑوں روپے کا سامان ضبط کیا گیا جس میں مہنگی گھڑیاں، موبائل اور لیپ ٹاپ شامل تھے۔ تاہم بعد ازاں یہ مسروقہ سامان چائنا کے تھرڈ کلاس سامان اور بند دکان کھلوا کر ایسسریز کے اسکریپ سے بدل دیا گیا۔ کیونکہ اسمگلروں نے جس سپرٹنڈنٹ سے سیٹنگ بنا کر کھیپ لائی تھی، انہوں نے کمیشن پہلے دے دیا تھا۔ اس معاملے میں اے سی اور ایڈیشنل کلکٹر ایئر پورٹ کراچی کلکٹریٹ کے کردار کے حوالے سے بھی سوالیہ نشان سامنے آئے۔ شہر میں سرگرم کھیپیئے غیر ملکی فلائٹ سے آتے جاتے رہے اور کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ ہفتہ کی بنیاد پر ملک سے باہر ترسیل کرنے اور اس کے عوض سامان اسمگل کرکے ٹیکس چوری کا باعث بنتے رہے ۔اس دوران فی کیری کے عوض کسٹمز شعبہ آمد اور روانگی کے ملوث افسران لاکھوں روپے وصول کرتے رہے جبکہ دیگر اداروں کے اہلکار بھی اپنا حصہ لیتے رہے۔ یہ کام ایک اہلکار کے ذریعے کئی برسوں تک کراچی ایئر پورٹ پر تعینات ایک ایس پی ایس کرواتا رہا، جس کا ایک فرنٹ مین ایئر پورٹ پر ہی ایک وفاقی قانون نافذ کرنے والے ادارے کا اہلکار ہے۔ روزانہ درجنوں کیری افراد، اپنے سامان کے ساتھ فی شخص شراب کی دو سے تین بوتلیں بعض کسٹمز کے افسران کی فرمائش پر لاتے رہے ان درجنوں بوتلوں کو فی بوتل 25سے 30 ہزار روپے میں فروخت کرکے لاکھوں روپے روزانہ علیحدہ سے بنائے گئے۔
موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 30 ستمبر کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے کراچی ایئر پورٹ پر آنے والی پرواز کے ذریعے 5 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے لیپ ٹاپ، آئی پیڈز اور دیگر مہنگے فونز کے ساتھ ہی ایپل کمپنی کا ساڑھے چار سے پانچ لاکھ روپے مالیت کا آئی فون 14پرومیکس کے ساتھ ہی اعلیٰ کوالٹی کے شیشہ فلیور کی اسمگلنگ کیس کی تحقیقات میں اسمگلنگ کا سامان لے کر آنے والے کیریئر مسافر کو گرفتار کرنے کے بعد جسمانی ریمانڈ حاصل کرکے اس کو ایئر پورٹ سے کلیئر کروانے کے لئے پروٹوکول دلوانے والے1994ء کے سابق ہاکی پلیئر اور اس مسافر کو سامان سمیت ایئر پورٹ کی پارکنگ سے ساتھ لے کر جانے کیلئے گاڑی لے کر کھڑے اولمپین کے مسافر کے ساتھ رابطوں کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ جو اس وقت کسٹمز کے ملازم ہیں۔ اسی کے ساتھ دونوں سابق ہاکی پلیئرز کے شفٹ میں موجود کسٹم افسران کے ساتھ رابطوں پر بھی تفتیش کی جا رہی ہے ۔
اطلاعات کے بقول مذکورہ کارروائی پریونٹو جناح ایئر پورٹ کلکٹریٹ کے شفٹ انچارج امتیاز اور سپرٹنڈنٹ طارق کی سربراہی میں کی گئی۔ جس میں پروٹوکول میں جانے والے مسافر کے متعدد بیگ پورٹر سے رہ گئے، جنہیں لاعلمی میں کسٹمز کے شفٹ میں موجود افسران نے اسکیننگ مشین میں ڈال دیا اور یوں اسمگلنگ کا سامان بر آمد ہوگیا۔ اگر پروٹوکول کی کارروائی مکمل ہوجاتی اور غلطی سے سامان پیچھے رہ نہ جاتا تو یہ اسمگلنگ کی یہ واردات 100فیصد کامیا ب ہوجاتی۔ کسٹم ذرائع کے بقول سیٹنگ بنائے بغیرکراچی کا کوئی بھی کھیپی نیٹ ورک کروڑوں روپے کا سامان لانے کا خطرہ کسی بھی صورت مول نہیں لیتا ۔کوئی بھی کھیپی یہ سرمایہ کاری اسی وقت ہی کرتا ہے جب اس کے کیریئر اور سامان کی کلیئرنس کے لئے سیٹنگ کی گارنٹی مل جاتی ہے۔
کئی افسران کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ایئر پورٹ سے اسمگلنگ کی وارداتوں کے بے نقاب ہونے کے بعد تبادلہ ہونے والے ایس پی ایس جمال ضیا کا تبادلہ کرکے انہیں کسٹمز انٹیلی جنس کراچی میں بھیجا گیا، جہاں انہیں مانیٹرنگ جیسی اہم پوسٹ دی گئی جس میں کراچی بھر کی مارکیٹوں ،گوداموں میں سپلائی ہونے والے چھالیہ، کپڑا، الیکٹرانکس، کاسمیٹکس، مصالحہ جات، ایرانی ڈیزل، آئل، خوردنی تیل سمیت ہر قسم کے اسمگلنگ کے سامان کے ساتھ ایئر پورٹ ،پورٹ قاسم ، کراچی پورٹ سے ہونے والی اسمگلنگ، انڈر انوائسنگ، مس ڈکلریشن اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ملزمان اور ملوث کسٹمز افسران پر نظر رکھنا ان کی ذمے داری ہے۔ اگر ان پر الزام ہے کہ وہ ایئرپورٹ پر فرائض کی انجام دہی میں مشکوک کردار ادا کرتے رہے تو پھر انہیں معطل کرنے کے بجائے اتنی اہم ذمے داری کیوں دی گئی ہے۔