نواز طاہر:
پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) میں شام بڑی جماعت مسلم لیگ ’ن‘ سے تعلق رکھنے والے محکمہ قانون و انصاف کے وزیر اعظم نذیر تارڑ نے اپنے منصب سے استعفیٰ جوڈیشل کمیشن میں ججوں کی لسٹ پر وکلا تنظیموں کی اجتماعی رائے کے برعکس دیا ہے۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے استعفے کی وجہ کو وکلا برادری میں پذیرائی ملی اور نہ ہی وہ اپنی وزارت پر برقرار رہ سکے ہیں۔ بلکہ یہ استعفیٰ ان سے لیا گیا ہے۔ جبکہ ججوں کی تقرری کے معاملے پر وکلا اب بھی سنیارٹی لسٹ کے موقف پر قائم ہیں۔ جس کیلئے پشاور اور اس کے بعد کراچی میں ملک گیر کنونشن میں لائحہ عمل بنایا جائے گا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیر کے روز صدرِ مملکت کے نام لکھے جانے والے اپنے استعفے میں واضح کیا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر بحیثیت وزیر فرائض کی انجام دہی جاری نہیں رکھ سکتے۔ یہ سطور لکھے جانے تک استعفے کی منظوری کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا تھا اور خیال کیا جارہا ہے کہ وزیر اعظم کی سعودی عرب سے واپسی پر استعفے پر غور ہو سکتا ہے۔
ابتدائی طور پر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ججوں کی تعنیاتی میں بار کے نکتہ نظر سے متفق ہونے کے باوجود جوڈیشل کمیشن میں حکومتی پالیسی کے مطابق رائے دینے پر محسوس ہونے والی ذہنی تنائوپر استعفیٰ دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ استعفے کی بنیادی وجہ وہ نہیں جو اعظم نذیر تارڑ بتاتے ہیں۔ بلکہ لاہور میں منعقد ہونے والی سالانہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ہونے والی نعرہ بازی ہے۔
یاد رہے کہ تین روز قبل عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں مقتدر ریاستی اداروں اور قیادت کے خلاف وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی موجودگی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے دوران ہونے والی نعرہ بازی ہے ۔ ذرائع کے مطابق ان نعروں کا سخت نوٹس لیا گیا اور وزیر اعظم شہباز شریف کو اس ضمن میں بیرون ملک دورے کے دوران ہی مطلع کیا گیا اور نعروں کے ساتھ ہی ویڈیو کلپ بھی دکھائے گئے۔ جن میں وزیر قانون کے چہرے پر ان نعروں کیخلاف ناگواری کے جذبات نہیں تھے۔ بلکہ مسکان موجود تھی۔ اسی بنا پر انہیں استعفیٰ دینے کیلیے کہا گیا۔ جس پر انہوں نے بلا تامل ہاں کر دی اور جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں حکومتی پالیسی کے مطابق ووٹ بھی دیدیا اور ساتھ ہی اپنا استعفیٰ لکھ کر صدر مملکت کو بھجوا دیا۔
اعظم نذیر تارڑ کے قریبی ذرائع کے مطابق جب نعرے لگائے گئے تو اس وقت صرف وزیر قانون ہی نہیں بلکہ وزیر خارجہ بھی موجود تھے۔ لیکن وزیر خارجہ سے استعفیٰ نہیں لیا گیا۔ کیونکہ انہوں نے معافی مانگ لی تھی۔ جبکہ وزیر قانون نے معافی نہیں مانگی۔ واضح رہے کہ بلاول بھٹو کہ یہ بیان سامنے آیا کہ ’’انسانی حقوق کی تنظیم نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں نعرے لگائے اور میں نے اس کا جو بھی جواب دیا، وہ نامناسب تھا۔ میں ایک وفاقی وزیر ہوں۔ مجھے نعروں پر بہتر انداز میں ردعمل دینا چاہیے تھا۔ پاکستان میں سب نے مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے اور ہم سب اس کا شکار رہے ہیں۔ عام شہری، میرا خاندان اور ہمارے سپاہی دہشت گردی سے متاثر ہوئے۔ پاک فوج آج تک دہشت گردی کے نشانے پر ہے اور دہشت گردوں کا سامنا کررہی ہے‘‘۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ذاتی طور پر نہیں بلکہ بطور وفاقی وزیر ووٹ دیا اور یہی استعفیٰ کی اصل وجہ ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں لگنے والے نعروں کو استعفے کا جواز نہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ایک مختصر گروہ کی طرف سے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی پر دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ جذباتی نعرہ بازی کرنے والے حکومتی اقدامات اور اداروں کی کوششوں اور قربانیوں کو بھی بھول گئے۔ ہم سب ایک مضبوط پاکستان کے خواہاں ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ سے استعفے کے جواز پر تبصرہ کرتے ہوئے سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین ذوالفقار خاں جلبانی کا کہنا ہے کہ ججوں کی تعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جونیئر ججوں کے حق میں ووٹ دینے کے بعد وزارتِ قانون سے استعفیٰ دینے پر اعظم نذیر تارڑ نے یہی کیا کہ ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ وکلا تنظیموں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ججوںکی تعیناتی میں سنیارٹی کے اصول پر قائم رہنا ہے۔ جوڈیشل کمیشن نے فیصلہ کثرتِ رائے کی بنیاد پر کیا ہے۔ جواختیارات سے تجاوز نہیں۔ لیکن سنیارٹی کے اصول کے منافی ہے اور بار کونسل کے نمائندے نے اس فیصلے کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ ذوالفقار خان جلبانی کے مطابق، نومبر کے پہلے ہفتے میں پشاور میں وکلا کا ملک گیر کنوینشن ہوگا۔ جس کے بعد کراچی میں ملک گیر کنوینشن ہوگا جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔