احمد خلیل جازم:
وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعرات کو عمران خان کے ممکنہ لانگ مارچ کے اعلان کے پیش نظر سندھ پولیس کے 6000 اہلکار اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ ایف سی کے 90 پلاٹون اور 2667 اہلکار بھی اپنی گاڑیوں پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ ستمبر کے مہینے کے آخری عشرے میں بھی اسلام آباد پولیس نے چاروں صوبوں سے 30 ہزار کے قریب نفری طلب کی تھی، جس پر آئی جی سندھ نے مختلف اضلاع سے نفر ی طلب کرکے بعد ازاں 400 اہلکاروں کی لسٹ تیار کر کے انہیں اسلام آباد روانہ کیا تھا۔ اکتوبر کے پہلے عشرے میں اسلام آباد پولیس نے تیس ہزار ایف سی، رینجرز، سندھ پولیس اور ایلیٹ فورس سمیت مختلف قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو طلب کیا تھا اور بڑی تعداد میں کنٹینرز بھی منگوائے گئے تھے۔
وفاقی پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق عمران خان کو نا اہل کیا گیا تو اسلام آباد پولیس کو یہ خدشات لاحق تھے کہ احتجاج کے لیے پی ٹی آئی کے کارکنان اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے۔ اگرچہ اس وقت کم تعداد میں لوگ باہر نکلے تھے اور بعد میں عمران خان نے لوگوں کو احتجاج ختم کرنے اور لانگ مارچ کی کال کا انتظار کرنے کو کہا تھا۔ اب گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں عمران خان نے جمعرات یا جمعہ کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ نومبر سے پہلے پہلے یہ مارچ ہوگا۔ اس تناظر میں اسلام آباد پولیس نے اپنی ناکافی نفری کے پیش نظر ایف سی اور سندھ پولیس سے اہلکار دوبارہ طلب کر لیے۔ ایف سی اور سندھ پولیس کے جوانوں کی بڑی تعداد کو ٹھہرانے کے لیے وفاقی انتظامیہ اور اسلام آباد پولیس نے فیصل مسجدکے صحن میں بندوبست کیا ہے اور حاجی کیمپ کو بھی ان کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ حاجی کیمپ عرصہ دراز سے خالی پڑا ہوا ہے، جس میں رہائش کے لیے بہت زیادہ گنجائش موجودہے۔ جب کہ ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کے اخراجات اس پرمستزاد ہوں گے۔ وفاقی حکومت کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت جلد ہی فوج کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے جو اسلام آباد کی اہم سرکاری عمارات کی حفاظت کے لیے مامور ہوگی۔ ریڈ زون اور اس سے ملحقہ ڈپلومیٹک ایونیو، پی ٹی وی سمیت دیگر اہم سرکاری عمارات پر بھی فوج کو تعینات کیا جائے گا۔ جب کہ ایف سی اور سندھ پولیس کے اہلکار، لانگ مارچ کو روکنے کے لیے اسلام آباد کے تمام چھوٹے اور بڑے داخلی راستوں پر تعینات ہوں گے۔ اسلام آباد میں داخلے کے لیے سب سے اہم راستوں میں فیض آباد، کشمیر ہائی وے اور اسلام آباد انٹر چینج ہیں۔ فیض آباد سے لاہور، گوجرانوالہ،گجرات، سیالکوٹ ، جہلم،سمیت، کشمیر اور ملحقہ علاقوں گلگت بلتستان سے آنے والوں کے لیے بھی ایف سی اور پولیس تعینات ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تمام فورسز کے اخراجات کے لیے وزارت خزانہ اور وزارت داخلہ کو ایک بار پھر لکھ دیا گیا ہے۔ اس مرتبہ بجٹ 150 ملین روپے سے زائد ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ مزید ایف سی کی نفری اسلام آباد طلب کی جائے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اس مرتبہ پوری تیاری سے اسلام آباد کی جانب چڑھائی کرے گی۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ عمران خان کے لانگ مارچ کو کسی قیمت پر اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جلد الیکشن کرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الیکشن آئین کے مطابق اپنے وقت پر ہوں گے۔ اور اس کے لیے پی ٹی آئی کو ایک برس انتظار کرنا ہوگا۔ جب کہ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جلد الیکشن کرانے کے حوالے سے بیک ڈور رابطے شروع ہیں اور اس حوالے سے تین میٹنگز ہوچکی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی جلد الیکشن کرانے کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ رہی۔ جب کہ حکومت مارچ سے قبل الیکشن کرانے پر کسی صورت راضی نہیں ہے۔ عمران خان بنی گالہ میںلانگ مارچ کو حتمی شکل دینے کے لیے سینئر قیادت کے ساتھ مستقل لائحہ عمل ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس تناظر میں وفاقی پولیس پر بہت زیادہ دبائو بڑھ گیا ہے اور اسلام آباد پولیس اپنی مکمل تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس مرتبہ خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی خصوصی طورپر لانگ مارچ روکنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔جب کہ ایف سی اور سندھ پولیس پہلے ہی موجود ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں منگوائی گئی نفری کو رہائش سمیت دیگر مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن فیصل مسجد اور حاجی کیمپ میں عارضی قیام گاہوں نے کم از کم رہنے کامسئلہ حل کردیا ہے۔ جب کہ ان اہلکاروں لانے لے جانے کے لیے پولیس اور ایف سی کی ٹرانسپورٹ سمیت پرائیویٹ گاڑیوں کا بھی بندوبست کیا جارہا ہے۔