احمد خلیل جازم:
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ پیرکو اڈیالہ تشدد کیس پر نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ پرآئی جی جیل خانہ جات اور سپرٹنڈنٹ جیل کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر ہیومن رائٹس کورٹ قائم کرے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ٹرائل خصوصی عدالتوں میں ہوگا۔ علاوہ ازیں عدالت نے جیل میں شکایات سیل قائم کرنے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔ عدالت کو سیکریٹری ہیومن رائٹس کمیشن نے بتایا کہ اڈیالہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ پانچ ہزار قیدیوں کیلئے صرف ایک مرد ڈاکٹر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو از خود ایک ٹارچر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ ستمبر کی 24 تاریخ کو ایک خاتون کے بیٹے پر تشدد کی درخواست پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا تھا۔ اور وہاں قیدیوں کے حالات جاننے کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ جیل میں قیدیوں پر تشدد کے حوالے سے رپورٹ پیش کرے۔ چنانچہ چیئر پرسن رابعہ جویری، ممبر پنجاب ندیم اشرف اور قانونی مشیر وقار احمد پر مشتمل ہیومن رائٹس کے ارکان نے اڈیالہ جیل جا کر انفرادی طور پر قیدیوں کے بیانات قلم بند کیے اور اس کی روشنی میں ننانوے صفحات پر مشتمل ایک رپوٹ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو پیش کردی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’’اڈیالہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ چار ہزار قیدیوں کیلئے صرف ایک مرد ڈاکٹر ہے‘‘۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو از خود ایک ٹارچر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ رپورٹ میں 1400 قیدیوں کے منشیات کے عادی ہونے کا بھی انکشاف کیا گیا‘‘۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا ’’یہ اس لئے ہے کیونکہ وہ (اڈیالہ جیل) کرپشن کا گڑھ ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کسی بھی قیدی تک رسائی لے سکتا ہے۔ انہیں سپرنٹنڈنٹ جیل یا کوئی اور بھی منع نہیں کر سکتا۔ آپ کو قانون میں بہت زیادہ اختیار ہے۔ آپ کنسلٹنٹس کی خدمات بھی لے سکتے ہیں۔ اس عدالت کو ہر روز شکایات موصول ہوتی ہیں جو آپ کو بھجوائی جا رہی ہیں۔ قانون کے مطابق پبلک سرونٹس کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی ہو سکتی ہے‘‘۔ چنانچہ اسی تناظر میں آئی جیل خانہ جات اور سپرنٹنڈنٹ جیل کے خلاف محکمانہ کارروائی کاحکم دے دیا گیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ’’قانون بہت طاقتور ہے۔ سیکریٹری داخلہ کے خلاف بھی کارروائی ہوسکتی ہے‘‘۔ اس کارروائی کے لیے عدالت نے محکمے کو دو روز کا وقت دیا تھا۔ ابھی تک کسی قسم کی کوئی محکمانہ کارروائی ان دو ذمہ داران کے خلاف نہیں ہوسکی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کی تفصیلی رپورٹ میں چشم کشا حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ’’سینٹرل جیل راولپنڈی (اڈیالہ جیل) میں 6 ہزار 98 قیدی ہیں اور اس کی گنجائش 2 ہزار 174 ہے۔ تقریبا 4 ہزار 98 قیدی زیر سماعت ہیں۔ جیل 180 فیصدگنجائش سے زیادہ کام کر رہی ہے۔ سینٹرل جیل میں عملے کی کل تعداد 444 ہے۔ جیل میں عملے کی اسامی 247 ہے۔ ڈیوٹی کے اوقات بہت زیادہ ہیں۔ تندور پر پکنے والی روٹی کم پکی ہوتی ہے۔ ہر روز تقریباً450 قیدی عدالت جاتے ہیں۔ 5 ہزار 851 مرد قیدیوں کے لیے طبی سہولت انتہائی ناگفتہ ہے۔ ان پر صرف ایک مرد ڈاکٹر تعینات ہے۔ بجٹ 1.5 ملین ہے۔ جبکہ ضرورت 7.5 ملین روپے کی ہے۔ عملے کی مدت تعیناتی بہت زیادہ ہے۔ زیادہ تر ملازمین تین سال کی منظور شدہ مدت سے زیادہ جیل میں رہے ہیں۔ ایک جگہ زیادہ تعیناتی نے مفادات اور بدعنوانی کو فروغ دیا ہے۔
ڈپٹی ایس اے متاع جس کے خلاف سب سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں، اٹھائیس برس اڈیالہ جیل میں تعینات رہا۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اکرم اپنی نوکری کے سترہ برسوں میں دس برس اڈیالہ جیل میں تعینات رہا۔ دس نابالغوں کو ضمانت مل گئی۔ لیکن ان کے پاس ضامن نہیں ہیں۔ 75 فیصد مرد نابالغوں کا باپ نہیں ہے۔ جیلوں میں منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ کے معاملے پر انکوائری کی ضرورت ہے۔ کھانا کھانے کے قابل نہیں ہے۔ 35 قیدیوں نے اپنے بیانات قلمبند کرائے۔ 26 قیدیوں نے مختلف نوعیت کے تشدد اور غیر انسانی توہین آمیز سلوک کا الزام لگایا۔ قیدیوں کے خفیہ بیانات الگ سے ایک فائل میں درج ہیں۔ تمام قیدیوں نے جیل میں دستیاب حقیقی سہولیات کے لیے بھتہ خوری کی شکایت کی‘‘۔ ایک لمبی چوڑی رپورٹ ہے جس کے چیدہ چیدہ نکات لکھے گئے ہیں۔ جبکہ اس رپورٹ میں جو سفارشات عدالت کو پیش کی گئیں، وہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
اس ضمن میں کہا گیا ہے کہ ’’قانون سازی کریں اور تشدد کو جرم قرار دیں۔ پنجاب جیل کے قوانین کا مسودہ پاس کیا جائے۔ ہر صوبے میں ایک خصوصی جیل ٹریبونل قائم کریں۔ لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی کا جائزہ لیں۔ اس کے غیر فعال ہونے کی وزارت انسانی حقوق سے رپورٹ طلب کریں۔ جووینائل جسٹس ایکٹ 2018ء کو فعال بنائیں۔ عدالت داخلہ اور قانون و انصاف کی وزارتوں سے ’جے جے ایس اے 2018ئ‘ کے آپریشنل ہونے پر رپورٹ طلب کرسکتی ہے۔ آج تک قوانین نہیں بنائے گئے۔ بچوں کی بحالی کے لیے کوئی مرکز نہیں ہے۔ کم عمر مجرموں کو نوجوان مجرموں کی جیل میں رکھا گیا ہے۔ اگر مقدمے کی سماعت چھ ماہ سے زیادہ ہو تو نابالغوں کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔ طبی خدمات تک رسائی آسان بنائیں۔ قیدیوں کو جیل سے باہر جانے کے لیے ایس او پیز کو بہتر بنایا جائے۔ جیل رول 197کے تحت کسی بھی قیدی کو باہر ہسپتال منتقل کرنے کے لیے وزارت داخلہ سے اجازت لینی ہوتی ہے۔ اس سے طبی امداد میں غیر معمولی تاخیر ہوتی ہے۔ ڈسٹرکٹ لیگل ایڈ کمیٹیوں کو بااختیار کیا جانا چاہیے‘‘۔
تشدد کی اقسام اور غیر انسانی ذلت آمیز سلوک پر اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’قیدیوں نے بتایا کہ تشدد اس وقت شروع ہوتا ہے، جب نئے قیدی کو ’ملاحظہ‘ کے نام پر سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس انٹرویو میں نئے قیدیوں کا ایک گروپ صحن میں جمع ہوتا ہے اور ایک ایک کرکے سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے سوالات کا شور مچایا جاتا ہے اور قیدیوں کے ہر جواب کے ساتھ گردن پر غیر متوقع طور پر ایک اہلکار زور دار تھپڑ رسید کرتا ہے۔ اس کا مقصد قیدیوں کی انا کو دبانا اور دکھلانا ہوتا ہے کہ یہاں انچارج کون ہے۔ پھر قیدیوں کو ’چکر‘ کے اندر لے جایا جاتا ہے جہاں چمڑے کے پٹوں سے مزید پیٹا جاتا ہے۔ اسی طرح نافرمانی کی سزا ’قصوری چکی‘ میں بندش ہوتی ہے۔ یہ جیل کے اندر ایک الگ جیل ہے۔ جہاں ہنگامہ کرنے والے قیدیوں کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ اڈیالہ جیل میں اسے Eik سیل کا نام دیا گیا ہے۔ اس جیل میں ایک اور نظام ہے جسے نگرانوں کا نظام کہا جاتا ہے۔ یہ وہ قیدی ہوتے ہیں جنہیں جیل انتظامیہ دوسرے قیدیوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری سونپتی ہے۔ ان نگرانوں کو جیل انتظامیہ رشوت لینے کے بعد تعینات کرتی ہے۔ یہ نگران اس قسم کا کام سرانجام دیتے ہیں جو جیل ملازمین انجام دیتے ہیں۔ نگران کی تعیناتی کے لیے یہ عذر استعمال کیا جاتا ہے کہ جیل انتظامیہ کی موجودہ طاقت جیل کے فرائض کو موثر انداز میں سرانجام دینے کو ناکافی ہے۔ تاہم اس نظام کے تحت نگران قیدی اپنے ساتھی قیدیوں پر تشددکے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں‘‘۔
تشدد کے طریقوں کے بارے میں بھی تفصیلی بات کی گئی۔ رپورٹ میں اس حوالے سے تشدد کی ٹرمز بھی بیان کی گئی ہیں۔ لکھا ہے کہ ’’قیدی پر ’استر پادیو‘ نامی تشدد ہوتا ہے۔ یعنی جب ایک آدمی کو بازوئوں سے لٹکا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تشدد کی ایک اور شکل ’جہاز کیلا‘ ہے۔ شکار کو چار لوگوں نے ہوا میں پکڑا ہوتا ہے۔ ہر ایک دو ٹانگیں اور دو ہاتھ الگ الگ پکڑتا ہے۔ یوں جہاز کی طرح اس کی پشت پر ربڑ کے ٹائر سے بنے چھتر سے مارا جاتا ہے۔ اسی طرح’کوا کیلا‘ ہے۔ جہاں ایک شخص گھٹنوں کے پیچھے سے گزرنے والی چھڑی کے ساتھ آگے کو جھکا ہوا بیٹھا ہوتا ہے۔ متاثرہ شخص کو گھنٹوں ایسی حالت میں رکھا جاتا ہے۔ جس سے اس کی خون کی گردش میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے‘‘۔ اڈیالہ جیل میں بربریت کے حوالے سے اس رپورٹ میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ قیدیوں کی موت، جیل کے عملے کے تشدد اور زیادیتوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ جن کی محکمانہ موثر طور پر تحقیق نہیں کی جاتی اور یوں اہلکاروں کو صرف ٹرانسفر کی سزا دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عدالت نے اس رپورٹ پر ہی احکامات جاری کیے اور کیس کی سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کردی۔