نواز طاہر/ احمد خلیل جازم:
پی ٹی آئی کا لانگ مارچ دوسرے مرحلے میں بھی اپنا شیڈول پورا کیے بغیر آغاز کے بعد وسط میں پہنچنے سے پہلے ہی ختم کردیا گیا۔ قبل ازیں پہلے مرحلے میں بھی یہ اپنا روٹ مکمل نہیں کرسکا تھا۔ ابتدا میں جاری کیے جانے والے شیڈول کے مطابق پہلے مرحلے میں آزادی چوک تک لانگ مارچ کرنے اور شاہدرہ کے مقام پر پڑائو کرنا تھا۔ لیکن اس اعلان کے برعکس داتا دربار پر مارچ ختم کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے لاہور سے اسلام آباد تک اپنے لانگ مارچ کی حکمت عملی تبدیل کردی ہے، جس کے تحت پورے صوبے کے بجائے ہر ڈویژن میں لانگ مارچ میں متعلقہ علاقوں کے کارکنان شامل ہوںگے۔ یوں اعلان کردہ ’حقیقی آزادی مارچ‘ اب قومی لانگ مارچ کے بعد اب عملی طور پر ریجنل لانگ مارچ میں بدل دیا گیاہے اور یہ انتخابی مہم کے مسلسل جلسوں کی سی شکل اختیار کرگیا ہے۔ شاہدرہ کے مقام پر کارکنان کو چار روز کی چھٹی مل گئی ہے اور وہ چار نومبر کو راولپنڈی میں الگ جلوسوں کے ساتھ شرکت کریں گے۔ دو دن تک یہ مارچ گوجرانوالہ ڈویژن میں رہنا تھا۔ لیکن یہ گوجرانوالہ ڈویژن میں داخل ہی نہ ہوسکا اور لاہور کی حدود سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر رچنا ٹائون کے مقام پر ہی ختم کردیا گیا۔ ہفتے کو شیڈول کے ساتھ ساتھ قائدین کے رویے میں بھی تبدیلی آئی۔ ’’امت‘‘ میں شائع خبر کے بعد جلوس کے قائدین کے ٹرک میں صوبہ سندھ کی نمائندگی بھی کرادئی ہے اور سندھ اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف حعلم عادل شیخ بھی سوار ہوگئے ہیں جنہیں لاہور میں نظر انداز کیا گیا تھا۔
شیڈول کی تبدیلی اور حکمتِ عملی کے حوالے سے پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر یاسمین حامد نے ’’امت‘‘ کو جواز پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پارٹی قیادت یہ نہیں چاہتی کہ تمام کارکنان ہفتہ بھر مسلسل سفر کرکے تھکان سے چور ہوجائیں۔ اس لئے لاہور کے کارکنان اب اس لانگ مارچ کو راولپنڈی، اسلام آباد میںچار نومبر کو جوائن کریں گے۔ یہی طریقِ کار دوسرے اضلاع کے لئے طے کیا گیا ہے۔
ہفتے کو شیڈول کے مطابق دن ساڑھے گیارہ بجے لانگ مارچ کا دوسرا مرحلہ شروع ہونا تھا۔ لیکن بارہ بجے تک قیادت کے ٹرک خالی تھے اور پانچ سے سات سو کارکنان نعرے لگارہے تھے۔ راوی روڈ کے اختتام پر میٹرو اسٹیشن کے قریب پیٹرول پمپ پر بارہ بجے کے قریب سب سے پہلے سابق وفاقی پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت ڈاکٹر نوشین حامد کی قیادت میںآٹھ خواتین کیلئے کنٹینر کا دروازہ کھولا گیا اور انہیں ٹرک پر سوار کرایا گیا جس کے بعد مرکزی قائدین کے کنٹینر پر سوار ہوئے۔ بارہ بجے تک سیکریٹری جنرل اسد عمر اور صوبائی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد کارکنان کی ڈیوٹیاں لگانے میں مصروف رہے۔ اس وقت تک صرف قافلے کے ساتھ دیگر شہروںسے آنے والے وہ کارکنان شامل تھے جن میں سے کچھ نے رات داتا دربار اور گاڑیوں میں بسر کی تھی۔ جبکہ اس سے سو گز کے فاصلے پر شاہدرہ چوک کے نصف قطر میں تین سے چار سو کارکنان مقامی عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈروں کے استقبالی ٹرالرز میں موجودتھے۔ ناروال، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ اضلاع سے لاہور میں داخل ہونے والے اس مرکزی چوک پر سب سے پہلے شرق پور سے قافلے پہنچے، جس کے بعد شیخوپورہ نارووال سے آنے والے چھوٹے چھوٹے قافلے اس چوک میں پہنچے۔ یوں دو بجے تک یہاں پانچ سے چھ ہزار افراد جمع ہوچکے تھے جنہوں نے عمران خان کے آنے سے پہلے ٹولیوں میں نعرہ بازی کی اور اپنے اپنے مقامی قائدین کے حق میں نعرے لگائے۔ پشتو میں نعرے لگانے والی تین ٹولیاں صرف عمران خان زندہ باد کے نعرے لگارہی تھیں اور مخصوص تھاپ پر رقصاں تھیں۔ عمران خان کی آمد کے وقت اس چوک سے ٹریفک بحال رکھی گئی۔ تاہم ہجوم بڑھنے پر کچھ دیر کیلئے یکطرفہ ٹریفک روک دی گئی۔ قافلے کی قیادت کیلئے لبرٹی مارکیٹ کی طرح یہاں بھی عمران خان تین سے زائد گھنٹے تاخیر سے پہنچے۔ یہاں پر خطاب میں عمران خان نے ماضی میں’ جنرل باجوہ‘ کے الفاظ ترک کرکے ’ باجوہ صاحب ‘ کے الفاظ استعمال کیے جس پر مجمع میں شامل کچھ افراد کا کہنا تھا کہ ’’ٹیوننگ ٹھیک ہوگئی ہے‘‘۔
تین بجے کے قریب قافلے نے جی ٹی ٰروڈ پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ روٹ فائنل کرتے وقت طے کیا گیا تھا کہ مضافات اور دیہی آبادی میں تمام روٹ دن کے اوقات میں مکمل کیے جائیں گے۔ لیکن اس کے برعکس اس قافلے کو لاہور میٹروپولیٹن کی حدود میں ہی مغرب ہوگئی جس کے بعد امامیہ کالونی، کالا خطائی چوک، رانا ٹائون اور کالا شاہ کاکو سے بڑی تعداد میں گاڑیاں قافلے سے الگ ہوکر دوسرے روٹ پر مڑ گئیں۔ چوک سے تھوڑا آگے فیروزوالہ کچہری کے سامنے رک گیا ، یہاں پر بکتر بند سمیت پولیس کی بیس سے زائد گاڑیوں، ڈولفن اسکواڈ اور پولیس کے دیگر شعبوں کے درجنوں اہلکاروں نے قافلے کو اسکواڈ کیا ۔ جی ٹی روڈ کے مغربی کنارے پر استقبال کرنے والے بچوں اور خواتین سمیت دو ہزار سے زائد افراد موجود تھے۔ یہاں پر سرکاری اور غیر سرکاری گاڑیوں کی تعداد اکیس سے سے زائد شمار کی گئی جن میں بڑے حجم والے وہ ٹرک بھی شامل تھے جن میں سوار قائدین کے وہ دیو قامت ٹرک بھی شامل تھے تو سڑک پر تاروں سے بچنے کی کوشش میں ٹکراتے بھی رہے۔ جبکہ خواتین کے ٹرک میں شامل ایک خاتون کے کچھ بال تاروں سے الجھ کر ٹوٹ گئے۔ قافلے میں شامل فلائنگ کوچوں میں چھ سے آٹھ افراد سوار تھے۔ اس قافلے میں پی ٹی آئی کے معمول کے جلوسوں کے برعکس فیملیز کی گاڑیاں شامل نہیں تھیں۔ ڈیوٹی دینے والے سرکل آفیسر اور تمام ایس ایچ اوز مختلف مقامات پر ویڈیو فوٹیج بناتے اور شرکا کی تعداد اور گاڑیاں شمار کرتے دکھائی دیے۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ پنجاب پولیس قافلے کے شرکا کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کر ے گی اور جمعے کو انہوں نے اس ضمن میں مزید خصوصی احکامات جاری کیے تھے ۔ پونے آٹھ بجے کے قریب اچانک رچنا ٹائون کے مقام پر لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ اتوار کو یہ لانگ مارچ دن ساڑھے گیارہ بجے مرید کے سے شروع ہوگا، جس وقت لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا گیا اس وقت مریدکے میں تین استقبالیہ کمیپوں میں ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد موجود تھے جن میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی، جبکہ بعض کارکنان قیادت کو کوستے ہوئے اپنے دیہات کی جانب روانہ ہوگئے۔ قابلِ ذکر امر ہے کہ پی ٹی آئی نے سیکورٹی اور روٹ پر فرائض انجام دینے والی فورسز کے ساتھ مبہم شیڈول شیئر کیا ہے، جس میں یہ کنفیوژن باقی ہے کہ وہ گوجرانوالہ سے سیالکوٹ جائیں گے بھی یا نہیں۔ کچھ فورسز کے شیڈول کے مطابق عمران خان رات گوجرانوالہ میں پڑائو کریں گے۔ ان کے شیڈول میں قافلے کاسیالکوٹ روٹ شامل نہیں۔
دوسری جانب وفاقی پولیس نے اسلام آباد میں 22 ہزار اہلکار طلب کرلیے ہیں جو مختلف داخلی اور اہم مقامات پر تعینات ہوں گے۔ ان میں ایف سی، رینجرز، پنجاب کانسٹبلری، اینٹی رائٹ فورس اور سندھ پولیس کے اہلکار شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پانچ سو خواتین پولیس اہلکار بھی شامل ہوں گی۔ علاوہ ازیں آنسوگیس کے پندرہ ہزار شیل سمیت مجمع کو منتشر کرنے والے دیگر آلات بھی بڑی تعداد میں پولیس کو مہیا کردئیے گئے ہیں اور سو کے قریب قیدی ویگنیں بھی منگوا لی ہیں۔ اسی طرح پنجاب کی جیلوں کی صفائی کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔ ممکنہ ہنگامہ آرائی سے نمٹنے کیلئے اہلکاروں کو پندرہ ہزار کے قریب آنسو گیس کے شیل، پروٹیکٹر شیلڈز اور بلٹ پروف جیکٹس بھی مہیا کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈ زون کو گزشتہ روز مکمل طور پر سیل کردیا تھا، جس سے سرکاری دفاتر میں آنے جانے والوں کو خاصی مشکلات کاسامنا ہے۔ جب کہ رہائشی علاقوں میں بھی لوگ کافی مشکلات کاشکار ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں اسمارٹ چیک پوائنٹس بھی لگائے گئے ہیں، شہر بھر میں سیف سٹی کیمروں، اسمارٹ کارز اور ڈرون کیمروں کے ذریعے پٹرولنگ کی جا رہی ہے۔ تحریکِ انصاف لانگ مارچ کے حوالے سے اسلام آباد کی پولیس کی جانب سے تمام مقامی ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز کے لیے حکم نامہ جاری کیا گیا ہے کہ کوئی ہوٹل یا گیسٹ ہائوس لانگ مارچ کے شرکا کو کمرے نہیں دے گا۔ حکم نامے میں اسلام آباد پولیس کا مزید کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز کی چیکنگ ہوگی۔ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کے حوالے سے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی میں 11 ارکان شامل ہیں جس کی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ صدارت کریں گے۔ کمیٹی میں ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، قمر زمان کائرہ، امین الحق، آغا حسن بلوچ، مولانا اسعد محمود، مریم اورنگزیب، سردار خالد مگسی، میاں افتخار اور حنیف عباسی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی لانگ مارچ سے متعلق امن و امان قائم رکھنے اور سیاسی بات چیت کے لیے قائم کی گئی ہے۔ ادھر اسلام آباد کے شہری راستوں کی بندش کی وجہ سے خاصی پریشانی کا شکار ہیں۔ ذرائع نقل و حمل محدود ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں اشیائے خورونوش کی قلت کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ گزشتہ روز صرف پیاز پانچ کلو، سات سو روپے میں فروخت ہوئی۔ اسی طرح راولپنڈی میں بھی یہی صورت حال ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف سیلاب نے سبزیوں کی قلت میں ہوش ربا اضافہ کیا تو اب لانگ مارچ کی وجہ سے سبزی منڈی میں سبزیوں کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔