نواز طاہر/ احمد خلیل جازم:
پی ٹی آئی کا لانگ مارچ چوتھے روز ترمیمی شیڈول کے مطابق اپنا سفر پورا کر سکا۔ لیکن اسی دوران قافلے کے شرکا کی تعداد میں مزید کمی آگئی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی نے اس چوتھے مرحلے کو دوسرا مرحلہ قرار دیا ہے۔ دوسرے شہروں سے مسلسل سفر کرنے والوں کی تھکان میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ لیکن وہ مجبوری کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں اور کچھ ’’مسافروں‘‘ نے بھی اپنا شیڈول تبدیل کرلیا ہے جو گوجرانوالہ سے سیالکوٹ اور سیالکوٹ سے وزیرآباد کے لانگ مارچ میں شامل نہیں ہوںگے، بلکہ گوجرانوالہ اور گجرات میں ریسٹ کریں گے۔ دوسری جانب عمران خان کے کنٹینر تلے آکر شہید ہونے والی خاتون صحافی کا سوگ بھی آتشبازی کے ساتھ اُڑا دیا گیا۔ چن دا قلعہ میں چوتھے مرحلے کے اختتام کا اعلان پر بتایا گیا کہ یہ لانگ مارچ آٹھ سے نو روز میں اسلام آباد پہنچے گا۔ کوشش کریں گے کہ تشدد کا موقع نہ دیں اور انقلاب لائیں۔ اگر انقلاب کا راستہ روکا گیا تو یہ خونیں انقلاب ہوگا۔ چوتھا مرحلہ ختم کرنے کے بعد عمران خان پیر کے روز ساڑھے آٹھ بجے شب دوبارہ لاہور پہنچ گئے تھے۔
پیرکولانگ مارچ کے چوتھے مرحلے کے آغاز سے قبل وزیراعلیٰ و پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت جمشید چیمہ کے بیان میں کہا گیا کہ آج (پیر کو) سندھ سے آنے والا قافلہ کراچی سے براستہ حیدرآباد، سکھر، ملتان سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگا۔ عمران خان جی ٹی روڈ پر موجود شہروں اور قصبوں کی عوام کو موبلائز کریں گے۔ وہ منگل کو وزیر آباد اور بدھ کو گجرات پہنچیں گے۔ جمعرات کو جہلم کھاریاں اور جمعہ کو گوجر خان سے اسلام آباد جائیں گے۔ اگلے مرحلے میں بدھ کو گلگت بلتستان اور خیبر پختون کے دور دراز اضلاع سے قافلے اپنا سفر شروع کریں گے۔ بدھ یا جمعرات کو جنوبی پنجاب کے قافلے سندھ کے قافلوں کے ہمراہ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوں گے۔ جمعرات کو آزاد کشمیر اور خیبر پختون کے قافلے روانہ ہوں گے۔ آخری مرحلے میں پورے پاکستان سے قافلے جمعہ کے دن اسلام آباد کی جانب چلیں گے۔
واضح رہے کہ مسلسل تین بار سفری ٹارگٹ پورا نہ ہونے پر عمران خان نے پہلے سفر کے دس سے بارہ کلومیٹر کی اوسط کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا تھا کہ روزانہ دس سے بارہ کلومیٹر سفر کیا جائے گا اور پھر اس کا باضابطہ اعلان چوتھے روز کامونکی سے چوتھے مرحلے کے آغاز سے قبل خطاب میں کیا گیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم ایک دن میں زیادہ سے زیادہ بارہ کلومیٹر کلوکا سفر طے کر سکتے ہیں۔ لوگوں کی محبت اتنی ہے کہ ہم ایک دن میں دس سے بارہ کلومیٹر سے زیادہ آگے نہیں جا سکتے۔ جس وقت عمران خان اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے تعلق پر خطاب کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ عوام کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے۔ اس سے چار گھنٹے قبل صوبائی حکومت کی ہدایت پر نیشنل ہائی وے کے زیرانتظام سڑکوں کا کنٹرول بھی ضلعی پولیس سنبھال چکی تھی اور راستے بند کیے جاچکے تھے۔ یہاں تک کہ لاہور رنگ روڈ اور موٹر وے بھی عمران خان کی سیکیورٹی کلئیر رکھنے کیلیے بیس منٹ سے زائد بند رکھا گیا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ میں لاہور سے نکلتے ہی صحافی ٹارگٹ تھے۔ جس کی ابتدا مریدکے سے ہی صحافیوں کو تصاویر اور فوٹیج بنانے کیلئے نارووال چوک اور ہیڈ برج پر چڑھنے سے روکنے کے جارحانہ انداز سے کی گئی تھی۔ سادھوکی میں بھی کئی مقامات پر دھکے مارے گئے تھے۔ تاہم ضحافیوں نے نظر انداز کیا۔ لیکن کامونکی میں پولیس نے اس ’برداشت‘ پر بھی ڈنڈے چلا دیئے اور صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے کارکن اور رہنما بھی آزادانہ رائے رکھنے والے صحافیوں کے ساتھ درشت لہجہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ لاہور سے لانگ مارچ کے ساتھ جانے والے کچھ صحافی پی ٹی آئی کے کارکنوں سے غیظ و غضب سے محفوظ رہنے کیلئے اپنے اداروں کے مائیک اور لوگو بھی اپنے طور پر چھپا چکے تھے۔ سول میڈیا پر شیئر ہونے والی اطلاعات کے مطابق لانگ مارچ کی ڈیوٹی کے دوران ایک پولیس اہلکار دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا۔
چوتھے روز بھی لانگ مارچ کا آغاز تین گھنٹے کی تاخیر سے ہوا۔ جس میں باقی تین روز کی طرح چار ہزار سے زائد افراد سے عمران خان سے وفاداری کا حلف لیا گیا گیا۔ ساڑھے تیرہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے قافلہ ساڑھے سات بجے چن دا قلعہ گوجرانوالہ پہنچا۔ جہاں آتشبازی کرکے استقبال کیا گیا۔ واضح رہے کہ ضلع گوجرانوالہ کی آبادی پچپن لاکھ سے زائد ہے اور انتخابی سیاست کے حوالے سے یہ مسلم لیگ ’ن‘ کا گڑھ ہے۔ یہان پر نارووال، سیالکوٹ، ایمن آباد، حافظ آباد، علی پور چٹھہ، حافظ آباد، شیخوپورہ، نارنگ، بدوملہی، چونڈہ، شکر گڑھ، ظفروال، پسرور، ڈسکہ، سمبڑیال، گکھڑ اور دھونکل سمیت ملحقہ علاقوں کے قافلے بھی شامل تھے۔ قافلے میں شامل افراد کو یقین دلایا گیا ہے کہ قافلہ اسلام آباد پہنچنے تک پی ٹی آئی کا ٹارگٹ حاصل ہوجائے گا۔ یا تو الیکشن کی تاریخ مل جائے گی یا پھر حکومت گھر چلی جائے گی۔ تاہم سینئر شرکا باہمی گفتگو میں اس دلاسے پر مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ قافلے کے ساتھ لاہور، گوجرانوالہ ڈویژن کے علاوہ بہاولپور تک کے پولیس افسران کو بھی فرائض کی انجام دہی پر مامور کیا گیا ہے۔ بہاولپور ٹریفک پولیس کے مطابق یہاں کے ایس پی بھی لانگ مارچ ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ اور پولیس کو وہاں سے گزرنے والے قافلوں کے لئے انتظامات کی ہدایات جاری کردی گئیں۔ یہ افسر اور اہلکار انڈس ہائی وے اور موٹر وے پر قافلوں کو ریسکیو کریں گے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی لانگ مارچ سے ممکنہ بد امنی کے پیش نظر اسلام آباد پولیس نے چھاپا مار کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں کیپٹل پولیس نے پی ٹی آئی کے جن مقامی عہدیداروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔ ان میں راجا ذوالقرنین اور راجا خرم نواز بھی شامل ہیں۔ پولیس نے ان کے ڈیروں پر چھاپے مارے۔ تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔ اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے سرگرم کارکن انجم تنولی کے گھر پر بھی چھاپا مارا۔ اس کریک ڈاؤن کے دوران پولیس مطلوبہ افراد کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسلام آباد میں کریک ڈائون کے حوالے سے پولیس ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد کے مقامی پی ٹی آئی رہنمائوں کی ایک فہرست مرتب کر لی گئی ہے۔ یہ رہنما مقامی لوگوں سے فنڈز اکھٹے کرنے کے علاوہ لوگوں کو دھرنا دینے پر بھی اکسا رہے تھے اور دیگر مشکوک سرگرمیوں میں بھی شامل ہیں۔ لیکن ابھی تک پولیس کی گرفت میں کوئی مقامی رہنما نہیں آسکا۔ تاہم پولیس نے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے دیگر سول سوسائٹی میں شامل کارکنان جن میں بعض تاجر اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں، ان کی بھی نگرانی کررہی ہے۔ ادھر اسلام آباد پولیس کا اس حوالے سے ایک بیان میں کہنا ہے کہ کسی بھی فرد کے خلاف کوئی مقدمہ یا کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی، تاوقتیکہ وہ امن عامہ میں رکاوٹ ہو۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے 23 مقامی رہنمائوں کی لسٹ مرتب کر رکھی ہے، لیکن ان میں سے اب تک کوئی بھی پولیس کی گرفت میں نہیں آسکا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد سہیل ظفر چھٹہ کی سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز، خیابان چوک، زیرو پوائنٹ میں پولیس افسران اور جوانوں کو امن و امان کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے اور شہرکے امن و امان میں خلل ڈالنے والوں کے حوالے سے بریفنگ دی۔ انہیں تاکید کی گئی ہے کہ کسی کو بھی امن و امان خراب کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے۔ شہریوں کی جان و مال اور نجی وسرکاری املاک کے تحفظ کے لئے تمام تر ضروری اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔
پولیس ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پولیس نے چیکنگ کی ہے جس میں 186 گھروں کی تلاشی لی گئی ہے اور 22 مشکوک افراد، 19 گاڑیوں اور 47 موٹر سائیکل سواروں کو چیک کیا گیا ہے۔ دوسری جانب وزارت داخلہ نے اسلام آباد ریڈ زون کے علاقے کو اتاترک ایونیو سے فیصل ایونیو تک بڑھا دیا ہے۔ تاکہ اہم تنصیبات کو کسی بھی خطرے سے محفوظ رکھا جا سکے۔ چار نومبر کو لانگ مارچ کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ قبل ازیں، ریڈ زون تھرڈ ایونیو اور مری روڈ کے چوراہوں کے مغرب کے علاقوں بشمول چائنا ایمبیسی، یونیورسٹی روڈ کے جنوب میں فورتھ ایونیو تک، خیابانِ اقبال کے جنوب میں فورتھ ایونیو سے اتاترک ایونیو تک، اتاترک ایونیو کے مشرق میں جناح ایونیو تک، ایمبیسی روڈ کے مشرق میں خیابان سہروردی تک، ڈھوکری چوک کے شمال میں ،سرینگر ہائی وے پر کنونشن سینٹر چوک مری روڈ اور تھرڈ ایونیو کے چوراہے تک مشتمل تھا۔ پولیس نے ان مقامات پر گشت بڑھا دیا ہے، جس سے اردگرد کے رہائشی علاقے کے لوگوں کو خاصی پریشانی کاسامنا ہے۔
اسلام آباد میں اس وقت کافی تعداد میں کنٹینرز سڑکوں کے کنارے پر لائے جاچکے ہیں۔ لیکن انہیں ابھی سڑکوں پر رکھا نہیں گیا۔ جب کہ پولیس تمام اہم شاہراہوں پر اسمارٹ کارز کے ذریعے گشت تیز کیے ہوئے ہے۔ ان کاروں کو سیف سٹی کیمروں سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یہ اسمارٹ کاریں ہمہ وقت گشت پر رہیں گی اور جیسے ہی کسی سیف سٹی کیمرے میں مجمع دکھائی دے یا کوئی انتشار کا معاملہ درپیش ہو، تو فوری طورپر یہ اسمارٹ کارز میں دکھائی دے جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی پولیس نے اسلام آباد کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے جدید اور بڑے پیمانے پر انتظامات کررکھے ہیں۔ تحریک انصاف کا لانگ مارچ اگر مہیا کی گئی جگہ سے ریڈ زون یا ڈی چوک کی طرف روانہ ہوا تو فوری کارروائی کی جائے گی۔